موت کے نہیں ہیں اور جس نے بھی ایسا لکھا ہے بطور مجاز کے لکھا ہے۔ جیسا کہ مجاہد صاحب نے بحوالۂ بخاری متوفیک کے معنے ابن عباسؓ سے ممیتک نقل کردئیے ہیں(ص۹)‘‘یہ معنے مجازی ہیں نہ حقیقی، جیسا کہ تاج العروس شرح قاموس میں صراحت کی ہے۔ (جواب دعوت کا ص۵ دیکھو) ورنہ حضرت ابن عباسؓ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الیٰ السماء کے قائل ہیں۔ جیسا کہ اسی رسالہ کے شروع میں نسائی ومسند احمد کے حوالہ سے نقل کیا جاچکا ہے۔ پس ابن عباسؓ کی مراد ممیتک سے اماتۃ بعد النزول ہے اور وہ اس آیت میں تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں جیسا کہ تفسیر عباسی میں ہے: ’’مقدم ومؤخر… متوفیک قابضک بعد النّزول (ص۳۸ مطبوع مصر)‘‘ باقی بحث توفیٰ کی ہمارے رسالہ ’’جواب دعوت‘‘ میں از ص۳ تا ص۶ ملاحظہ ہو۔
آگے مجاہد صاحب نے اپنی سوم میں رفع کا ذکر پھر چھیڑ دیا ہے۔ اس پر بحث جواب دلیل نمبر۱ میں ہم بہت کافی روشنی ڈال چکے ہیں۔ البتہ یہاں پر مجاہد صاحب نے ایک عجیب بات لکھ دی ہے۔ کہ ’’آنحضرتﷺ ضرور آسمان پر جاتے… مگر معراج کے بعد ایک دفعہ بھی ان معنوں میں آپ کا رفع نہیں ہوا کہ آپ آسمان پر اس جسم مبارک سے گئے ہوں۔ (ص۹)‘‘تو کیا شب معراج میں آنحضرت ﷺ کا اپنے جسم مبارک کے ساتھ ہفت افلاک کے سیر کرنا ہماری طرح آپ بھی مانتے ہیں؟ اگر آپ مانتے ہوں تو ذرا صاف صاف لکھ تو دیجئے کہ آنحضرتﷺ کو معراج بجسدہ العنصری ہوئی تھی، پھر تو حضرت عیسیٰ کے رفع الی السماء کا اقرار بھی آپ سے ہم کرالیں گے۔ انشاء اللہ!
راہ پر ان کو تولے آئے ہیں ہم باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
رہی دعائے وارفعنی تو ضرور قبول ہوئی پڑھو ورفعنا لک ذکرک۔ چونکہ یہاں رفع کا صلہ الیٰ مع اپنی ضمیر مجرور کے مذکور نہیں ہے اس لئے ارفعنی سے مراد رفع الیٰ السماء نہیں ہے بلکہ رفع ذکرورفع مراتب مراد ہے: ’’ کما قال حسانؓ وصنم الا لہ اسماء النبی مع اسمہ۔ اذ قال فی الخمس الموذن اشہد‘‘
جواب دلیل۴
فہرست میں یہ پہلی دلیل تھی جس کو مجاہد نے چار کردیا اور پھر چار نمبروں میں اس کا جواب (اپنے زعم میں) دیا ہے۔ ہم نے آیت انہ لعلم للساعۃ (زخرف:۶۱) میں علم کا ترجمہ نشان اور ساعۃ کا ترجمہ قیامت کیا تھا جیسا کہ (مرزاقادیانی کے رئیس محدثین) حضرت شاہ ولی اﷲ