سب ان پر ایمان لاکر مسلمان ہوجائیں گے۔ پس ان میں باہمی عداوت بھی نہ رہے گی۔ کیونکہ اب وہ نہ یہودی رہے نہ عیسائی۔
ان مسائل میں ہے کچھ زرف نگاہی درکار
یہ حقائق ہیں تماشائے لب بام نہیں
جواب دلیل نمبر۳
فہرست میں یہ دلیل نمبر۷ تھی مجاہد صاحب نے اس کو نمبر۳ بنا دیا ہے۔ ہم نے متوفیک کے وہی معنے کئے تھے جو مرزا قادیانی نے براہین احمدیہ ۵۲۰، خزائن ج۱ ص۶۲۰ میں کئے ہیں یعنی ’’تجھے پوری نعمت دوں گا۔‘‘مجاہد صاحب کہتے ہیں کہ یہ معنے ’’زبان عربی کے بالکل خلاف ہیں۔(ص۹)‘‘ معلوم ہوا کہ مرزا قادیانی تادم تصنیف براہین احمدیہ زبان عربی سے یکسر نابلد تھے۔ بہت اچھا آپ ایسا کہیں، ہم تو نہیں کہتے۔ مجاہد صاحب نے ایک ہزار روپیہ کے انعام کا ذکر کرتے ہوئے وہی پر انا راگ الاپا ہے کہ ’’قرآن وحدیث، لغت سے ایک مثال ایسی دکھائے جس میں توفیٰ باب تفعل سے ہو، خدا فاعل ہو اور ذی روح کے لئے بولا گیا ہو پھر اس کے معنی سوا قبض روح۔ یعنی موت کے کوئی اور ہوں۔ ص۸، قرآن مجید میں صاف صاف جب یتوفاکم باللیل (انعام:۶۰)‘‘ موجود ہیں جس میں توفی باب تفعل سے ہے۔ اللہ فاعل ہے ذی روح (انسان) مفعول ہے پھر اس کے معنی قبض روح یعنی موت کے نہیں ہیں۔ بلکہ سورہ زمر میں تو صاف صاف اللہ یتوفی الانفس کے ساتھ ساتھ والتی لم تمت(زمر:۴۲) بھی مذکور ہے۔ جو اس امر کا ثبوت بالصراحت ہے کہ تو فی بحسب الوضع بمعنے موت موضوع نہیں ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں تو فی کا لفظ حیٰوۃ کے مقابلہ میں کہیں نہیں بولا گیا ہے بلکہ حیٰوۃ کے مقابلہ میں ہر جگہ موت یا اس کا مشتق استعمال کیا گیا ہے۔
چند آیتیں ملاحظہ ہوں: ’’ یحییٰ ویمیت (بقرہ:۲۵۸)‘‘’’یحیی الارض بعد موتہا۔ احیاء وامواتا (مرسلات:۲۶)، یحییکم ثم یمیتکم امات واحییٰ (قمر:۴۴) لا یموت فیہا ولا یحییٰ (اعلیٰ:۱۳) یخرج الحی من المیت، اموات غیر احیاء (نحل:۲۱) الحیی الذی لا یموت ۔ یحیی اﷲ الموتیٰ۔ احی الموتیٰ‘‘ اور جس طرح قرآن مجید میں تو فی کی نسبت فرشتوں کی طرف کی گئی ہے۔ جیسے توفتہ رسلنا، اماتۃ کی نسبت کہیں بھی غیر اﷲ کی طرف نہیں کی گئی ہے بلکہ فعل اماتت ہر جگہ اللہ کی طرف ہی منسوب ہے جیسا کہ اوپر کی آیات سے ظاہر ہے۔ ان باتوں سے صاف ثابت ہے کہ توفیٰ کے معنے حقیقت میں