سب ایک دم سے مر گئے تھے۔ پھر حضرت موسیٰ کی دعا سے اللہ نے ان کو ز ندہ کیا تھا ) پس جیسے بعد موتکم کے معنی ہیں سب بنی اسرائیل کے ایک دم سے مر جانے کے بعد، اسی طرح قرأۃ ابی میں قبل موتہم کے معنی ہوں گے۔ سب اہل کتاب کے ایک دم سے مر جانے کے پہلے اور سب اہل کتاب کا ایک دم سے فنا ہوجانا اور ان کے کسی فرد کا باقی نہ رہنا قیامت کے قریب ہی ہوگا۔ نزول عیسیٰ کے بعد پس قرأۃ ابی اور قرأۃ متواترہ کا حاصل ایک ہی ہوا اور نزول عیسیٰ دونوں سے ثابت ہوا جو ہمارے موافق اور مؤید ہے اور مرزائیوں کے مخالف اور ان کو مضر۔
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا مرے حق میں
زلیخا نے کیا خود چاک دامن ماہ کنعان کا
مجاہد صاحب نے اس مقام پر بھی اپنی حسب عادت ایک مغالطہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ سولی پر مر کر بموجب توریت برُی موت مر گئے۔ (ص۷)‘‘ حالانکہ توریت میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ مطلقا ہر صلیب پر لٹکایا ہوا بری موت مرتا اور لعنتی ہوتا ہے‘ بلکہ خاص اس شخص کو ملعون کہا گیا ہے جو کسی جرم واجب القتل کی سزا میں مصلوب ہو۔ دیکھو کتاب استثناء میں مرقوم ہے: ’’اگر کسی نے کچھ ایسا گناہ کیا ہو جس سے اس کا قتل واجب ہو اور وہ مارا جائے اور اسے درخت میں لٹکائے (تا) پھانسی دیا جاتا ہے خدا کا ملعون ہے۔(باب۲۱ آیت ۲۲،۲۳)‘‘ فانّٰی ہذا من ذاک!
تیسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ قیامت کے دن عیسیٰ یہودیوں کے خلاف گواہ ہوں گے پہلے نہیں ہوں گے۔ (ص۷)‘‘ ہاں صاحب کون کہتا ہے کہ وہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں گواہ ہوں گے؟ جو قرآن کہتا ہے وہی ہم بھی کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ان پچھلے اہل کتاب کے ایمان کی شہادت قیامت کے دن دیںگے۔ آپ نے ان کے برخلاف گواہ بننا کہاں سے سمجھ لیا؟ کسی مترجم قرآن نے بھی ان کے خلاف گواہ بننے کا ترجمہ نہیں لکھا ہے۔ شاید یہ دھوکہ آپ کو علیہم شہیداء کے علیٰ سے ہوا ہے تو دیگر آیات سن لیجئے: ’’جعلنا کم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علیٰ الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا (بقرہ:۱۴۳)‘‘ یہاں بھی اسی طرح علیکم شہیدا وارد ہے تو کیا رسول اﷲﷺ امت وسط (صحابہ کرام) کے خلاف گواہ ہوں گے۔ اور سنئے: ’’جئنا من کل امۃ بشہید وجئنا بک علی ہٰئولاء شہیدا (نسائ:۴۱)‘‘ قیامت میں ہر پیغمبر اپنی امت کا گواہ ہوگا اور آنحضرتﷺ ان پیغمبروں پر گواہ ہوں گے تو کیا آنحضرت کی گواہی پیغمبروں کے خلاف ہوگی؟ کیونکہ یہاں بھی علیٰ موجود ہے اور لیجئے: ’’ہو سماکم المسلمین