اس کے تین جواب ہیں۔ لفظ یہ کہ حضرت ابی بن کعب کی یہ قرأۃ بوجہ شاذہ ہونے کے متروک اور اس سے استدلال غلط ہے۔ حضرت عمرؓ وغیرہ صحابہ حضرت ابی بن کعب کی اس قسم کی قرأتوں کو نہیں مانتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری پارہ ۲۰ کے آخر میں ہے: ’’قال عمر ابی اقرائنا وانا لندع من لحن ابی…الخ! یعنی حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ابی بڑے قاری ہیں تو بھی ہم صحابہ لوگ ان کی غلط قرأتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
فتح الباری میں ہے:’’ انہ ربما قرء ما نسخت تلاوتہ لکونہ لم یبلغہ النسخ (پ۱۸ ص۱۱۷)‘‘ یعنی حضرت ابی ایسی قرأۃ پڑھتے ہیں جس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہے اور ان کے بارے میں یہ کو اس کا منسوخ ہونا معلوم نہیں۔ حضرت عمرؓ کا ایک دوسرے قول ابی کے بارے میں یہ ہے۔ ’’اما انہ اقرأنا للمنسوخ (فتح الباری انصاری پ۲۰ ص۳۶۴)‘‘ یعنی حضرت ابی الفاظ منسوخ التلاوۃ کو بہت پڑھا کرتے تھے۔ پس جب حضرت ابی کی قرأۃ کا یہ حال ہے تو ان کی قرأت قبل موتہم کیسے معرض استدلال میں پیش ہوسکتی ہے؟ ثانیاً اگر ہم ابی کی قرأت کو مان بھی لیں تو اس صورت میں ہم کہیں گے کہ ابی کی قرأۃ محمول ہوگی ان کتابیوں پر جو نزول عیسیٰ سے قبل مریں گے۔ اور قرأۃ متواترہ کا تعلق ان کتابیوں سے ہوگا جو نزول عیسیٰ کے زمانہ میں زندہ اور باقی رہیں گے۔ جیسا ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا ہے: ’’اذا کان عند نزول عیسیٰ آمنت بہ احیاؤہم کما آمنت بہ موتاہم (درمنثور ص۲۴۱ج۲)‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ کے نزول کے وقت جو کتابی زندہ ہوں گے اسی طرح ایمان لائیں گے جس طرح نزول عیسیٰ سے پیشتر وہ کتابی جو اپنے مرنے کے وقت ایمان لاکر مرچکے۔
فنعم الوفاق وحبذالاتفاق۔ ثالثاً مذہب اصولیین کے مطابق اگر قرأۃ شاذہ کو قرأۃ متواترہ کے تابع کریں تو دونوں ایک ہی محمل پر محمول ہوں گی اور مطلب یہ ہوگا کہ: ’’کل امت اہل کتاب من حیث القوم نہ من حیث الاشخاص‘‘ اپنے فنا ہوجانے سے پیشتر حضرت عیسیٰ پر ایمان لائیں گی۔ جیسا کہ عقیدۃ الاسلام میں ہے۔ ’’ای یومنن بہ باجمعہم معا قبل موتہم ویکون المصدر کما فی قولہ تعالیٰ ثم بعثنا کم من بعد موتکم (ص۱۴۳)‘‘ یعنی عیسیٰ پر ایمان لائیں گے۔ سب کے سب اہل کتاب اپنے ایک دم سے مرجانے کے پہلے اور مصدر (موتہم) کے وہی معنے ہوں گے جو قرآن کی آیت من بعد موتکم کے معنی ہیں یعنی اللہ نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ ہم نے تم کو زندہ کیا تم سب کے ایک دم سے مرجانے کے بعد (بنی اسرائیل نے اللہ کے دیکھنے کی فرمائش کی تھی اس پر ان پر بجلی گری اور