مجاہد صاحب نے لسان العرب سے ایک عبارت پیش کی ہے جو بالکل ہمارے موافق ہے اور وہ یہ ہے فی السماء اﷲ الرافع ہو الذی یرفع المومنین بالاسعاد واولیائہ بالتقریب، کیونکہ اس میں رفع کا صلہ الیٰ مع ضمیر کے جو فاعل کی طرف راجع ہو موجود نہیں پس اس میں آسمان پر اٹھائے جانے کے معنی نہیں ہوسکتے بلکہ اسعاد (نیک بخت بنانے) اور تقریب (مقرب بنانے) کے معنے ہوں گے۔ اور یہ ہماری بحث سے خارج ہے علاوہ ازیں یہ مومنین اور اولیاء اﷲ سے متعلق ہے۔ نہ انبیاء ورسل سے فافترقا کہئے کچھ سمجھئے بھی؟
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے ذکر اور دل ان کو جوندے مجھ کو زباں اور
جواب دلیل نمبر۲
قبل موتہ کا ترجمہ ہم نے ’’عیسیٰ کی موت سے پہلے‘‘ لکھا تھا جس طرح شاہ ولی اﷲ صاحب نے جن کو مرزا قادیانی رئیس محدثین مانتے ہیں۔ (دیکھو ازالہ ص۵۳، خزائن ج۳ ص۱۷۸،۱۷۹) ترجمہ لکھا ہے ’’البتہ ایمان آورد بعیسیٰ پیش از مردن عیسیٰ‘‘اور جس طرح محدث ابن جریر طبریٰ نے (جن کو مرزا قادیانی نے نہایت معتبر اور آئمہ حدیث سے لکھا ہے۔ (دیکھو حاشیہ چشمہ معرفت ص۲۵۱، خزائن ج۲۳، ص۲۶۱) ترجمہ لکھا ہے: ’’لیؤمنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ (ج۶ ص۱۴) یعنی حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے۔ مجاہد صاحب بیک جنبش قلم اس مسلم اور قدیمی ترجمہ کو بھی غلط قرار دیتے ہیں اور اس کی چار وجوہات بیان کرتے ہیں دیکھو ص۶ پہلی وجہ یہ بیان کی کہ ’’مرجع ضمیر میں جب مفسرین میں اختلاف ہے۔ تو یہ آیت (دلیل محکمہ نہ ہی) اور ترجمہ بھی صحیح نہیں ہوا۔‘‘سبحان اﷲ قربان جائے اس فاضلیت پر اللہ تعالیٰ نے جس کتاب کے دلائل کو محکم فرمایا ہے۔ کتاب احکمت آیاتہ (ہود۲) اس کا محکم ہونا مفسرین کے اختلاف سے باطل ہوجاتا ہے؟ نازم برین فہم۔ ص۱۷ میں کتب تفاسیر کو غیر معتبر قرار دیا ہے اور یہاں اختلاف مفسرین سے آیت قرانیہ کو ہی غیر محکم ٹھہرادیا۔ غرض کتاب وسنتہ ان کے نزدیک بازیچہ طفلان ہے۔ جہاں موافق باتیں مل گئیںوہاں معتبر ورنہ غیر معتبر۔
ایں کار از تو آید ومرزا چنیں کند
رہی ترجمہ کی صحت اس کے متعلق ہم ’’جواب دعوت‘‘ کے ص۳۲،۳۳ میں بوضاحت بتا چکے ہیں کہ جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہی صحیح ہے۔ دوسری وجہ یہ بیان کی کہ حضرت ابی بن کعبؓ کی قرأۃ میں قبل موتہم کا لفظ ہے۔ پس یہاں عیسیٰ کی موت مراد نہیں بلکہ اہل کتاب کی موت مراد ہے۔