لسان العرب میں صلب کے ضمن میں جو القتلۃ المعروفۃ لکھا ہے اس کے معنے یہ ہیںکہ ’’صلیب بھی قتل کا ایک ذریعہ ہے‘‘ کیونکہ لفظ قتل عام ہے اس کی مختلف صورتیں ہیں، ایک ان میں سے صلیب بھی ہے، اس لئے قرآن مجید میں ما قتلوہ کے بعد ما صلبوہ کی تصریح کی ضرورت پڑی، قوم یہود قتل مسیح کی صورت، صلیب پر چڑھا کر مارنا کہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کی نفی ماقتلوہ سے کی اور صلیب پر چڑھانے کوماصلبوہسے رد کیا۔پس ما صلبوہ میں فعل صلب جو منفی ہے، صلیب پر چڑھانے کے معنی میں ہوانہ صلیب پر مارنے کے معنے میں کیونکہ مارنے کی نفی تو ماقتلوہ میں ہوچکی تھی۔ رہا صلیب پر چڑھانا، سو اس کی تردید ماصلبوہ سے کردی گئی۔ فافہم!
رفع کے معنے
رفعہ اﷲ الیہ فہرست میں دلیل نمبر۶ تھی مجاہدصاحب نے اس کو بھی نمبر۱میں داخل کردیا ہے۔’’جواب دعوت‘‘ کے ص۶ تا۹ میں رفع کے معنے سے متعلق ہم سیر حاصل بحث کرچکے ہیں۔اس لئے یہاں ہم اختصار سے کام لیں گے۔
سنئے! جب رفع یرفع رافع میں سے کوئی بولا جائے۔ جہاں اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور مفعول جوہر ہو۔ (عرض نہ ہو) اور صلہ الیٰ مذکور ہو اور مجرور اس کا ضمیر ہو اسم ظاہر نہ ہو وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو۔ وہاں سوا آسمان پر اٹھانے کے دوسرے معنی ہوتے ہی نہیں۔‘‘ اس کے خلاف کوئی آیت یا حدیث پیش کرو اور منہ مانگا انعام حاصل کرو۔ اب ہم مجاہد صاحب کے الفاظ میں لکھتے ہیں ’’ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی جہاں رفع مستعمل ہو اور اللہ فاعل ہو اور کوئی جوہر مفعول ہو اور وہاں صلہ الیٰ جس کے بعد ضمیر اللہ کی طرف پھرتی ہو مذکور ہو پھر وہاں سوا آسمان پر اٹھانے کے کوئی دوسرے معنی ہوں۔‘‘ اگر ایک مثال بھی ایسی مل جائے تو بے شک رفع اﷲ الیہ کے معنے جو سلف وخلف نے آج تک کئے ہیں غلط ہوجائیں گے اور سب کے سب قرآن کریم میں اپنی رائے سے معنے کرنے کی وجہ سے (حسب تصریح مباہلہ) جہنمی قرار پائیں گے۔ ورنہ پھر مجاہد صاحب اور ان کے ہم خیالوں کو اپنا ٹھکانا وہاں ہی تلاش کرنا چاہئے یا ان میں ہمت وجرأت ہو تو اپنے معنے ثابت کرنے کی غرض سے ہمارے پیش کردہ کلیہ اور قاعدہ کو توڑ دیں جس طرح ہم نے ان کے قاعدہ کو ’’جواب دعوت‘‘ میں توڑ دیا ہے۔ (ص۶ سے ص۹ تک ملاحظہ ہو)
سنبھل کے رکھیو قدم دشت خار میں مجنون
کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے