تک بھی کسی سے نقل نہیں کیا ہے۔ اسی طرح جن بزرگان سلف کی عبارات میں آسمان کا لفظ آیا ہے۔ مثلاً حضرت ابن عباسؓ، امام ابو حنیفہؒ، حافظ ابن قیمؒ، شیخ اکبر ابن عربیؒ، علامہ شامیؒ، ملا علی قاریؒ، مجدد الف ثانیؒ، پیران پیرؒ، خواجہ اجمیریؒ، مولانا عطارؒ، داتا گنج بخشؒ، شاہ ولی اللہؒ، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادرؒ، حافظ محمد مرحوم، علمی مرحوم، جن کی تصریحات اوپر منقول ہوچکی ہیں نیز دیگر بزرگان سلف وخلف جن کے اقوال ہم آئندہ کبھی نقل کریں گے۔ ان تمام بزرگوں کے قول کو غلط قول کہنا بڑی جسارت اور عوام کو کھلا ہوا مغالطہ دینا ہے۔
چوتھا مغالطہ
لکھتے ہیں ص۴: ’’جسمانی زندگی ثابت نہیں کی جاسکتی جب تک حضرت عیسیٰ کے ذکر کے ساتھ جسم خاکی، آسمانی دنیا، جسمانی زندگی کے تینوں الفاظ کی واضح تصریح نہ ہو۔‘‘ کیا مرزا قادیانی کو حضرت موسیٰ کے لئے یہ تینوں الفاظ کسی آیت یا حدیث میں مصرح مل گئے تھے، جن کی بناء پر نور الحق میں انہوں نے حضرت موسیٰ کی جسمانی زندگی آسمان پر تحریر کی ہے؟ اگر یہ اصولی بات مرزا قادیانی کے لئے ضروری نہ تھی تو ہمارے لئے کیوں ضروری ہے؟ اور کیا خدا اور رسول کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ آپ کی خود ساختہ اصولی بات کی پابندی کریں پھر یہ آپ کا مغالطہ نہیں تو کیا ہے؟
پانچواں مغالطہ
لکھتے ہیں ص۴: ’’حدیث میں آسمان کا لفظ… مولوی صاحبان کی طبع آزمائی کا نتیجہ ہے نہ کہ آنحضرتﷺ کا فرمودہ‘‘ جس طرح مرزا قادیانی نے ان لمہدینا آیتین…الخ! کو آنحضرتﷺ کا فرمودہ لکھ دیا ہے(نور الحق ص۱۹ ج۲،خزائن ج۸ ص۲۰۹)‘‘ جیسے مولوی غلام احمد مجاہد نے ’’جو قرآن کے مطابق ہو وہ صحیح سمجھنا…الخ!‘‘ کو آنحضرتﷺ کا فرمان تحریر کردیا ہے۔ (ظہور امام نمبر۲ ص۲ سطر ۱۹،۲۰) اسی طرح دوسری علماء حق کو بھی سمجھتے ہیں کہ من السماء کا لفظ محدثین نے آنحضرتﷺ کی طرف غلط منسوب کردیا ہے۔ سچ ہے المرء یقیس علیٰ نفسہ پس یہ بھی صریح مغالطہ ہے۔
مجاہد کے جوابات کی حقیقت
اس رسالہ کے شروع میں ہم لکھ آئے ہیں کہ ہمارا دوسرا ٹریکٹ جو ’’اظہار حقیقت‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور جو تیرھویں صفحہ پر ختم ہوگیا ہے۔ اس کا جواب مجاہد صاحب نے نہیں دیا۔