المقدس تشریف لائیں گے اور شرح شمائل میں ارقام فرماتے ہیں: ’’ان عیسیٰ یدفن بجنب نبینا ﷺ بینہ وبین الشیخین (جمع الوسائل مطبوع مصر ص۵۶۳)‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ (بعد نزول) ہمارے پیغمبرﷺ کے پہلو میں دفن ہوں گے آپ کے اور ابو بکرؓ وعمرؓکے درمیان میں۔ ملاعلی قاری کے یہ چار حوالے مرزائیوں کی تکذیب کے لئے کافی ہیں۔
خواجہ محمد پارساؒ
خواجہ صاحب اپنی کتاب فصول ستہ میں فرماتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰ بعد از نزول عمل بمذہب… خواہد کرو۔‘‘ دیکھو مکتوبات سرہندی کا مکتوب ۱۷ دفتر سوم، پس خواجہ محمد پارسا بھی نزول عیسیٰ کی صراحت فرما رہے ہیں اور فصل الخطاب من منکر نزول عیسیٰ کا کفر حدیث سے نقل کیا ہے۔
داتا گنج بخشؒ
حضرت علی ہجویری معروف بہ داتا گنج بخش اپنی کتاب کشف المحبوب میں ترقیم فرماتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰ مرقع (پیوند لگے ہوئے کپڑے) رکھتے تھے جس کو وہ آسمان پر لے گئے۔(ص۵۲ اردو ترجمہ مطبوع لاہور )‘‘لیجئے داتا گنج بخش صاحب تو حضرت عیسیٰ کے بدن کیا بدن کے کپڑے سمیت آسمان پر جانا لکھ رہے ہیں۔
حافظ محمد صاحبؒ
حافظ محمد صاحب لکھو کے (پنجاب) والے کا مشہور پنجابی شعر کتاب احوال الآخرۃ ص۳۰ پر یوں مرقوم ہے۔ آسماناں تھیں حضرت عیسیٰ موڈھے ملکاں آوے اوپر منارے شرقی مسجد جامع آن ملاوے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں سے فرشتوں کے کندھے کے سہارے آئیں گے۔ دمشق کی جامع مسجد کے پورب والے منارے پر، اس سے زیادہ کیا چاہئے۔
علمی مرحومؒ
مولوی محمد حسن علمی بھی حیات عیسیٰ کے قائل ہیں چنانچہ فرماتے ہیں: ’’آسمان پر عیسیٰ اور دائود وموسیٰ خاک میں (مجموعہ خطب علمی مطبوعہ علمی پریس لاہور ص۱۳)‘‘ اگر بقول آپ کے وہ وفات عیسیٰ کے قائل ہوتے تو مصرع یوں لکھتے ’’حضرت دائود موسیٰ اور عیسیٰ خاک میں‘‘ جب وہ حضرت عیسیٰ کو آسمان پر فرما رہے ہیں اور حضرت موسیٰ ودائود کو خاک میں لکھتے ہیں تو صاف یہی معنی ہوئے کہ حضرت عیسیٰ تو زندہ آسمان پر چل بسے اور حضرت موسیٰ ودائود مر کر خاک میں مدفون ہوئے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جتنے حضرات کے نام آپ نے قائلین وفات عیسیٰ کی فہرست میں گنوائے تھے وہ