العتبیۃ قال مالک بینا الناس قیام یستمعون لاقامۃ الصلوٰۃ فتغشاہم غمامۃ فاذا عیسیٰ قد نزل…الخ (ج۱ ص۲۶۶)‘‘ یعنی امام مالکؒ نے فرمایا کہ مسلمان لوگ (امام مہدی کے پیچھے) کھڑے ہوئے نماز (فجر) کی تکبیر (اقامت) سن رہے ہوں گے کہ سر کے اوپر بدلی نظر آئے گی۔ اس سے حضرت عیسیٰ اتریں گے۔ لیجئے حضرت! دیکھئے امام مالکؒ بھی حیات ونزول عیسیٰ کو قائل تھے۔ فموتوا بغیظکم!
امام بخاریؒ
امام بخاری نے اپنی جامع صحیح میں حضرت عیسیٰ کے اترنے کا ایک خاص باب ہی منعقد فرمایا ہے۔ باب نزول عیسیٰ ابن مریمﷺ (پ۱۳) اس باب میں دو حدیثوں سے حضرت عیسیٰ کا نزول ثابت کیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات میں بھی۔ چنانچہ پارہ۸ باب قتل الخنزیر وپارہ ۹ باب کسر الصلیب میں احادیث نزول عیسیٰ لائے ہیں۔ نیز امام بخاریؒ اپنی تاریخ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’یدفن عیسیٰ ابن مریم مع رسول اﷲﷺ وصاحبیہ فیکون قبرہ رابعا (درمنشور ج۲ ص۲۴۵ وص۲۴۶)‘‘ حضرت عیسیٰ آنحضرتﷺ اور ابو بکرؓ وعمرؓ کے پاس (روضۂ مطہرہ میں) مدفون ہوں گے۔ ان کی قبر وہاں پر چوتھی قبر ہوگی۔ فرمائیے جناب! امام بخاری بھی تو نزول عیسیٰ اور مدینہ میں ان کے آئندہ زمانہ میں دفن کئے جانے کے قائل ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہؒ
امام صاحب اپنی مشہور کتاب فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ’’ونزول عیسیٰ علیہ السلام من السمائ…حق کائن (ص۱۳ مطبوع دائرہ المعارف دکن)‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ کا آسمان سے اترنا حق ہے۔ ہونے والا ہے۔ کہئے مزاج بخیر ہے؟
امام شافعیؒ
امام شافعی، امام مالک کے شاگرد درشید ہیں۔ ان کی کوئی تصنیف بھی حدثنا مالکؒ سے خالی نہیں۔ اوپر امام مالک کا مذہب بیان ہوچکا ہے کہ وہ نزول عیسیٰ کے قائل تھے۔ نیز تمام صحابہ تابعین وتبع تابعین کا یہی مذہب تھا۔ تو امام شافعی کا مذہب بھی اس کے خلاف نہیں ہوسکتا اور نہ کہیں بھی ان سے وفات عیسیٰ کی تصریح منقول ہے، برخلاف اس کے امام شافعی سے حضرت عیسیٰ کی آمد مروی ہے، چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ہے یونس (شاگرد امام شافعی) کہتا ہے: ’’حدثنا محمد بن ادریس الشافعی…لاتقوم الساعۃ الاّٰعلیٰ شرار الناس ولا المہدی