ج۳ ص۳۶) حریث کہتا ہے کہ میں نے امام حسنؓ سے سنا فرماتے تھے کہ جس شب میں قرآن نازل ہوا۔ جس رات کو عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چڑھائے گئے جس رات کو موسیٰ کی جان قبض کی گئی، اسی شب میں حضرت علیؓ کو شہادت نصیب ہوئی، امام حسنؓ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت فعل اسریٰ اسی طرح بولتے ہیں جس طرح قرآن مجید میں آنحضرتﷺ کی معراج جسمانی کی بابت اسریٰ بولا گیا ہے۔ اور اسراء لغت میں اعضاء سے متعلق مانا گیا ہے نہ روح سے، مصباح منیر (لغت کی معتبر کتاب) میں ہے۔ السرایۃ اذ قطعتہ بالسیر یعنی جب تو اپنے جسم کے ساتھ چل کر کوئی مسافت طے کرے تو ’’سرایت‘‘ بولیں گے۔ اللہ نے موسیٰ کو وحی بھیجی فاسر بعبادی لیلا (دخان) بنی اسرائیل کو راتوں رات لے چل۔ لوط کو وحی آئی فاسر باہلک بقطع من اللیل (ہود۸۱ وحجر۶۵) اے لوط تو اپنے لوگوں کو کچھ رات رہے اس بستی سے لے نکل۔ پس ثابت ہوا کہ ’’اسرائ‘‘ انتقال مکانی کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اگر امام حسنؓ کا مذہب وفات عیسیٰ کا ہوتا تو جس طرح موسیٰ کے لئے انہوں نے قبض کہا تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی یہی فعل بولتے‘ دونوں پیغمبروں کے لئے دو متناقض لفظ نہ فرماتے، پس آفتاب نیمروز کی طرح واضح ہوگیا کہ امام حسنؓ حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل تھے۔ والحمد ﷲ!
حضرت ابن عباسؓ
روی النسائی عن ابن عباس قال لما اراد اﷲ ان یرافع عیسیٰ الی السماء …الخ! (درمنشور ج۲ ص۲۳۸) واخرج ابو الشیخ عن ابن عباس، مدّفی عمر ہ حتی اھط من السماء الی الارض یقتل الدجال (ایضاً ج۲ ص۳۵۰) وروی الامام احمد عن ابن عباس فی قولہ وانہ لعلم للساعۃ قال ہوخروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیامۃ (مسند احمد ج۱ ص۳۱۸ ومستدرک حاکم ج۲ ص۴۴۸) امام نسائی نے اپنی سند سے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے آپ نے کہا کہ جب اللہ حضرت عیسیٰ کو آسمان کی طرف اٹھانے لگا… نیز ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی عمر بہت لمبی کی گئی ہے یہاں تک کہ آسمان سے زمین پر اتر کر دجال کو قتل کریں گے۔ اور آیت علم للساعۃ کی تفسیر میں ابن عباسؓ نے کہا ہے کہ اس سے حضرت عیسیٰ کا قیامت سے پیشتر تشریف لانا مراد ہے۔ لیجئے ابن عباسؓ بھی حیات ونزول عیسیٰ کے قائل تھے۔
امام مالکؒ
ابو عبداﷲ مالکیؒ نے صحیح مسلم کی شرح اکمال اکمال المعلم میں تحریر کیا ہے: ’’وفی