اس کے قاتل تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہوں گے۔ اس حدیث میں چند باتیں قابل غور ہیں۔
۱… آنحضرتﷺ ابو بکر وعمر ودیگر مہاجرین وانصار کے سامنے یہ فرما رہے ہیں کہ دجال اکبر کو حضرت عیسیٰ آکر قتل کریں گے۔
۲… حضرت ابو بکرؓ بالکل خاموش رہتے ہیں اور اعتراض نہیں کرتے کہ یا رسول اﷲ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ اللہ تو فرماتا ہے قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران:۱۴۴) یعنی آپ کے پہلے کے تمام رسول تو (بقول مرزائیاں) فوت ہوچکے ہیں تو عیسیٰ جب مر گئے پھر اب کیسے وہ آکر دجال کو قتل کریں گے؟ بلکہ خاموشی سے فرمان نبوی کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور آپ کے ساتھ (ابن صیاد کو چھوڑ کر ) واپس چلے آئے اور کسی روایت میں ان سے وفات عیسیٰ مصرح نہیں۔
۳… حضرت عمرؓ جن کی رائے کے مطابق وحی الٰہی نازل ہوتی تھی۔ جس کی شان میں ان اﷲ جعل الحق علیٰ اللسان عمر (مشکوٰۃ ص۵۴۹) وارد ہے۔ یعنی اللہ عمر کی زبان پر حق جاری کرتا ہے، جنہوں نے بارہا نبی کریمﷺ کو بعض امور میں بغرض توضیح مسئلہ وبہ نیت طمانیت قلب ٹوک دیا ہے۔ حدیبیہ کے صلح نامہ کے خلاف ان کی جدوجہد مشہور ہیں، ابن ابی منافق کا جنازہ پڑھنے کو جب نبی کریم ورحیم آگے بڑھے ہیں تو دامن تھام کر عرض کرتے ہیں: ’’الیس اﷲ نہاک ان تصلے علی المنافقین (بخاری مصری ج۱ ص۱۴۵)‘‘ کیا آپ کو خدا نے منافقوں کا جنازہ پڑھنے سے روکا نہیں ہے؟ سید الاوس سعد بن معاذؓ کے لئے جیسے ہی آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’قوموا الی سیدکم فانزلوہ‘‘ اٹھ کر جائو اپنے سردار کو اتار لائو تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’سیدنا اﷲ عزوجل(مسند احمد ج۲ص۱۴۲)‘‘ ہمارا سردار تو اللہ عزوجل ہے‘ تعجب ہے کہ وہ عمرؓ حضرت عیسیٰ کی آمد سن کر بالکل خاموش رہتے ہیں اور کچھ نہیں بولتے کہ یا رسول اﷲ قرآن میں تو عیسیٰ کے لئے متوفیک اور توفیتنی آیا ہے وہ تو وفات پاچکے ہیں‘ پھر کیونکہ وہ دوبارہ آکر دجال کو قتل کریں گے؟ ان کو کہنا تھا کہ حیات مسیح تا قیامت کا عقیدہ تو شرکیہ ہے (بقول مرزا) آپ شرک مٹانے کو آئے ہیں یا اس کے استحکام کو؟ جب عمرؓ کچھ بھی نہیں بولتے اور ابن صیاد کو چھوڑ کر خاموشی سے آپ کے ساتھ واپس لوٹ پڑتے ہیں، تو صاف معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکرؓ کی طرح حضرت عمرؓ کا بھی مذہب یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور دوبارہ تشریف لائیں گے۔
حضرت امام حسنؓ
مستدرک حاکم ج۳ ص۱۴۳ میں عن الحریث سمعت الحسن بن علی یقول قتل لیلۃ انزل القرآن ولیلۃ اسریٰ بعیسیٰ ولیلۃ قبض موسیٰ (درمنشور