۲… حضرت ابن عباسؓ سے قرائۃ قبل موتہم کہیں بھی مروی نہیں ہے۔ ابن جریر میں نہ کشاف میں نہ کسی تفسیر میں یہ آپ کا جھوٹ اور ابن عباس پر صریح اتہام ہے۔ اگر ابن عباسؓ کی قرات قبل موتہم کی تفسیر کشاف وابن جریر سے آپ دکھلا دیں تو کم از کم میرے خیال میں اتنی تبدیلی ضرور ہوجائے گی کہ میں سمجھوں گا کہ مرزائی کبھی سچ بھی بول دیتے ہیں۔
۳… صاحب کشاف نے یہ بھی تو لکھا ہے: ’’الضمیران بعیسیٰ بمعنی وان منہم احد الا لیؤمنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ وہم اہل الکتاب الذین یکونون فی زمان نزولہ (ص۲۳۹ ج۱) یعنی بہ اور موتہ کی دونوں ضمیریں عیسیٰ کی طرف پھرتی ہیں اس معنی میں کہ اہل کتاب سب کے سب ضرور ایمان لائیں گے۔ عیسیٰ پر عیسیٰ کی موت سے پہلے اور یہ وہ اہل کتاب ہوں گے جو نزول عیسیٰ کے وقت موجود ہوں گے۔ پھر آپ کا یہ کہنا کہ ’’ضمیر حضرت عیسیٰ کی طرف لوٹتی ہی نہیں۔‘‘ قول مذکور کے مقابل میں غلط اور باطل ہوا یا نہیں؟
۴… اب محدث کبیر ابن جریر کا فیصلہ سنئے جن کا نام آپ نے پہلے لکھا ہے فرماتے ہیں: ’’انما معناہ الا لیؤمنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ (الیٰ قولہ) وان ذالک کان عند نزولہ (ص۱۴ ص۶)‘‘یعنی جز ایں نیست کہ معنی آیت یہ ہے کہ ضرور ضرور عیسیٰ پر ایمان لائیں گے عیسیٰ کی موت سے پہلے اور یہ ان کے نزول کے وقت ہوگا۔ اس کے بعد احادیث نزول نقل کی ہیں اور اس عبارت کے پیشتر بڑی تفصیل سے اس معنے (اہل کتاب اپنی موت سے پہلے ایمان لائیں گے) کی خرابی بیان کرتے ہوئے ان الفاظ میں تردید کی ہے: ’’فلو کان کل کتابی یؤمن بعیسیٰ قبل موتہ لوجب ان لا یرث الکتابی اذا مات علی ملتہ الا اولادہ الصغار او البالغون منہم من اہل الاسلام ان کان لہ ولد صغیرا او بالغ مسلم وان لم یکن لہ ولد صغیرہ ولا بالغ مسلم کان، یکون میراثہ مصروفا حیث یصرف الیہ مال المسلم یموت ولاوارث لہ، وان یکون حکمہ حکم المسلمین فی الصلوٰۃ علیہ وغسلہ وتقبیرہ، لان من مات مؤمنا بعیسیٰ فقد مات مؤمنا بمحمد وجمیع الرسل …الخ! (ص۱۴ ج۶)یعنی اگر ہر کتابی اپنے مرنے سے پہلے عیسیٰ پر ایمان لے آتا تو ایسی صورت میں جبکہ وہ ملت عیسیٰ پر مرا ہے ضروری ہے کہ اس کے وارث، چھوٹے بچے (جو فطرۃ اسلام پر ہوتے ہیں) یا وہ بالغ اولاد جو مسلمان ہوں، بشرطیکہ موجود ہوں وارث بنیں۔ اگر یہ موجود نہ ہو تو اس مرنے والے کا مال اسی طرح اسلامی بیت المال کے حوالہ کیا جائے۔ جس طرح لاوارث مسلمان مرنے والے کا مال اسلامی بیت المال کو دیا