دوستو! آپ نے دیکھا کیسی ’پوری پوری مشابہت‘ ہے؟ اس لئے ناشر دعوۃ کو ہمت نہیں ہوئی کہ مسیح اصلی ومسیح نقلی کا تقابل دکھائیں، استاد صاحب کے غالباً اسی موقع کے لئے پیش گوئی کی تھی۔
بنمائے بہ صاحب نظرے گوہر خودرا
عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرے چند
داعی… یا اخت ہارون اس آیت میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے۔ حالانکہ تواریخ سے ثابت ہے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نہ تھا …الخ! (ص۲)
مجیب… کاش آپ لوگ احادیث نبویہ کو مانتے تو ہرگز ایسا نہ لکھتے۔ صحیح مسلم میں ہے: ’’عن المغیرۃ بن شعبۃ قال لما قدمت نجران سا لونی فقالوا انکم تقرئون یا اخت ہرون‘ وموسیٰ قبل عیسیٰ بکذا وکذا فلما قدمت علی رسول اﷲﷺ سالتہ عن ذلک فقال انہم کانوا یسمعون بانبیائہم والصالحین قبلہم (مسلم ج۲ ص۲۰۷)‘‘کذا فی الترمذی والنسائی واحمد حضرت مغیرہ بن شعبہ صحابی تھے کہتے ہیں کہ میں نجران آیا تو (عیسائیوں نے) مجھ سے سوال کیا کہ تمہارے قرآن نے مریم کو ہارون کی بہن کہا ہے۔ (جو موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے) اور موسیٰ کا زمانہ عیسیٰ سے بہت پہلے ہے۔ تو میں نے (مدینہ آکر) آنحضرتﷺ سے اس امر کو دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہاں (ہارون سے موسیٰ کے بھائی مراد نہیں ہیں بلکہ) وہ لوگ اپنے پہلے کے پیغمبروں اور صالحوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہارون حضرت مریم کے رشتہ کے کوئی بھائی تھے ان کے والدین نے ان کا نام ہارون حضرت موسیٰ کے بھائی ہارون کے نام پر تبرکاً رکھ دیا تھا۔ اب سنئے اکابر مفسرین کی تصریحات، امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں: ’’کان لہا اخ یسمی ہارون من صلحا بنی اسرائیل فعیرت بہ، وہذا ہوالاقرب‘‘ (تفسیر کبیر ج۵، کذافی السراج المنیر) یعنی حضرت مریم کا بھائی ہارون نبی اسرائیل میں نیک آدمی تھا۔ مریم کو انہیں کا طعنہ دیا گیا تھا۔ اور یہی بات ٹھیک ہے۔ تفسیر رحمانی میں ہے ’’یا اخت ہارون من ابویہ ومن ابیہ‘‘ یعنی ہارون حضرت مریم کے سگے بھائی تھے یا سوتیلے بھائی تھے؟ تفسیر مدارک میں ہے۔ ’’کان اخہا من ابیہا‘‘ یعنی ہارون حضرت مریم کے سوتیلے بھائی تھے۔