اللباس (ج۴)‘‘ تفسیر معالم میں ہے: ’’اللباس یکون من نبات الارض والنبات یکون بما ینزل من السماء فمعنی قولہ انزلنا ای انزلنا اسبابہ‘‘ تفسیر خازن وفتح البیان میں ہے: ’’انزل المطر من السماء وہو سبب نبات اللباس‘‘ تفسیر مدارک میں ہے: ’’لان اصلہ من الماء وہو منہا‘‘ اسی طرح بیضاوی وابو السعود وسراج منیر میں اسباب نازلہ مرقوم ہے۔ حاصل سب عبارتوں کا یہ ہوا کہ وجود لباس کا سبب بارش ہے آسمان سے پانی برستا ہے۔ اس سے روئی کا درخت پیدا ہوتا ہے۔ روئی سے سوت اور سوت سے لباس تیار ہوتا ہے۔ پانی برستا ہے گھاس پیدا ہوتی ہے جسے بھیڑ اور دنبہ کھاتے ہیں ان کے بال بڑھتے ہیں جس سے اونی لباس بنتے ہیں اور بارش ہوتی ہے۔ شہتوت اور بیر کے درختوں کی پتیاں ہری بھری ہوتی ہیں۔ ان کو ریشم کے کیڑے کھاتے ہیں اور ریشم نکالتے ہیں جس سے ریشمی لباس وجود میں آتے ہیں۔ غرض کہ لباس ورزق کا وجود حصول اسباب سماویہ ومواد ارضیہ سے مل کر ہوتا ہے جیسا کہ سورہ یونس میں فرمایا ہے: ’’قل بن رزقکم من السماء والارض (آیت:۳۱)‘‘ اس کے آگے چھٹے رکوع میں ہے: ’’ا انزل اﷲ لکم من رزق(آیت:۵۹)‘‘ سورہ جاثیہ کی آیت اوپر بیان ہوچکی ہے۔ سورہ ذاریات میں وارد ہوا: ’’وفی السماء رزقکم وما توعدون(آیت:۲۰)‘‘ اور سورہ یٰسین میں تو صاف صاف فرمایا ہے انا صبینا الماء صباثم شقفنا الارض شقافانبتنا فیہا حبا الایۃ (آیت:۲۶،۲۷) ان آیات سے آسمانی بارش اور نبات ارضی سے انسانی معیشت کا حصول ثابت ہے۔ اسی قبیل سے یہ آیت بھی ’’انزلنا علیکم لباسا(اعراف:۲۶)‘‘ اس کو کہتے ہیں تسمیۃ الشیٔ باسم المسبب، پس انزال کے معنے آسمان سے اتار نا اس آیت میں بھی اسی طرح ثابت ہوئے جس طرح اوپر کی دونوں آیتوں میں۔ والحمد ﷲ علیٰ ذالک۔
داعی… دوسرا تشریح طلب لفظ ابن مریم ہے۔ جہاں پوری پوری مشابہت پائی جائے وہاں ایک نام کا اطلاق دوسرے پر ہوسکتا ہے…الخ! (ص۲)
مجیب… جبکہ بصراحتاً النص بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ ابن مریم بنت عمران علیہم السلام کا آسمان سے اتر کر زمین پر دوبارہ تشریف لانا ثابت ہے۔ کما بیتہ تو مثلیث اور مشابہت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لیکن مرزا قادیانی چونکہ براہین احمدیہ میں لکھ گئے ہیں کہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے۔ (ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۴) اسی لئے ناشر ’’دعوۃ‘‘ نے بھی مشابہت تامہ کا ترجمہ ’’پوری پوری مشابہت‘‘ کردیا اور اس کو علم بلاغت سے ثابت کرنے کے درپے ہوئے