۲… اگر رسولا کو منصوب بفعل مقدر نہ مانیں بلکہ ذکراً سے بدل قرار دیں یا عطف بیان کہیں، تو اس صورت میں رسولاً سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہوں گے۔ (تفسیر کشاف وبیضاوی) جو بواسطہ محمدﷺ کے بندوں پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور جبرائیل کا نزول من السماء متفق علیہ ہے۔ اور یہ سب کچھ قرآن مجید سے ثابت ہے۔ (سورہ تکویر:۱۹،۲۰) میں وارد ہے: ’’انہ لقول رسول کریم ذی قوت عند ذی العرش مکین ‘‘ یہاں جبرائیل کو اﷲتعالیٰ نے رسول فرمایا اور جس چیز کو یہاں قول سے تعبیر فرمایا ہے۔ اسی کو سورہ طلاق میں یتلوا علیکم (طلاق:۱۱) کہا ہے اور سورہ قیامت میں قرآناہ (قیامت:۱۸) اور جس طرح سورہ طلاق میں انزل اﷲ (طلاق:۱۰) آیا ہے اسی طرح سورہ شعراء میں نزل بہ الروح الامین علی قلبک (شعرائ:۱۹۳) اور (سورہ بقر:۹۷) میں قل من کان عدواً الجبریل فانہ نزلہ علی قلبک باذ ن اﷲ فرمایا گیا ہے۔ ان آیات سے جبرئیل کا رسول ہونا، اللہ ذوالعرش سے قرآن کی آیات لیکر نازل ہونا اور آنحضرت ﷺ کے قلب منور پر وارد کرنا اور آپﷺ کو پڑھانا صاف صاف ثابت ہے پس یہ تفسیر آیات ما نحن فیہا کی بہتر تفسیر ہے۔
داعی… ’’وانزلنا الحدید‘‘ اور ہم نے لوہا اتار اب غور کیجئے کہ کیا لوہا آسمان سے نازل ہوتا ہے یا کانوں سے نکلتا ہے۔ (ص۲)
مجیب… اس آیت کی تفسیر میں اگر ہم آپ کو یہ حدیث نبوی سنا دیں عن ابن عمر قال قال البنیﷺ وسلم ان اﷲ انزل اربع برکات من السماء الی الارض الحدید… الخ! (معالم، خازن، کشاف، کبیر، سراج منیر) یعنی اللہ نے چار چیزیں آسمان سے زمین کی طرف اتاری ہیں ان میں سے ایک لوہا ہے تو آپ فوراً اپنے مرزاصاحب کا یہ قول پیش کر دیں گے کہ ’’حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘(اعجاز احمدی ص۳۰، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰)‘‘ اس لئے ہم ان بزرگوں کا قول پیش کرتے ہیں جن کے قول سے مرزا قادیانی نے بڑی تعریف کے بعد استناد کیا ہے۔ (ازالہ اوہام ص۲۴۷، خزائن ج۳ ص۲۲۵) اور واقعی ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ بزرگ۔ جسر الامۃ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں:’’عن ابن عباس قال ثلاثۃ اشیاء نزلت مع آدم السندان والکلبتان والمیقعۃ (ابن کثیر وابن جریر)‘‘ وفی روایتہ نزل آدم من الجنۃ ومعہ سبعۃ اشیاء من الحدید السندان والکلبتان والمیقعۃ والمطرقۃ والابرۃ والمروالمسبحاۃ (کشاف ومدارک وابو السعود