مشہور لغوی علامہ راغب اصفہانی مفردات (قرآن کا لغت) میں لکھتے ہیں: ’’النزول فی الاصل ہو انحطاط من علو وانزال اﷲ تعالیٰ با نزال الشیء نفسہ کا نزال القرآن واما بانزال اسبابہ والہدایہ الیہ کانزال الحدید واللباس ونحو ذلک آہ‘‘ یعنی نزول کے اصل معنی اوپر سے نیچے کو اترنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اتارنا (دو طرح پر ہے۔) یا تو شئے بنفسہ کا اتارنا جیسے قرآن کا اتارنا یا اس شے کے اسباب وذرائع اور اس کی طرف (توفیق) ہدایت کا اتارناجیسے انزال حدید اور انزال لباس اور اس کے مثل (انزال میزان، انزال رزق، انزال انام، انزال رجز وعذاب وغیرہ) علامہ کی اس تصریح سے آپ کی پیش کردہ آیات کی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے اور ہم کو الگ الگ ان پر بحث کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن بپاس خاطر ناظرین ہم ہر ایک نمبر پر نظر ڈالتے ہیں۔
داعی… قد انزل اﷲ الیکم ذکرا رسولاً یتلوا علیکم آیات اﷲ۔ اس آیت میں حضرت کے لئے انزل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (تا) بطن آمنہ سے پیدا ہوئے تھے۔ (ص۲)
مجیب… کا ش آپ اس مقام کو مشہور درسی کتاب جلالین میں دیکھ لیتے تو ایسا نہ لکھتے۔ ملاحظہ ہو: قد انزل اﷲ الیکم ذکرا ہو القرآن رسولا ای محمدﷺ منصوب بفعل مقدر ای ارسل (جلالین، خاز ن،کشاف مدارک، سراج منیر) یعنی ذکراً سے مراد قرآن ہے جسے اللہ نے (آسمان سے) نازل کیا ہے اور رسولا کے پہلے ارسل محذوف ہے یعنی محمدﷺ کو رسول بنایا۔ اسی لئے قرآن مجید میں ذکراً کے بعد آیت کا گول نشان بنا ہوا ہے۔ جسے آپ نے عمداً حذف کردیا اور رسولاً الگ دوسری آیت میں ہے۔ قرآن مجید میں اس طرح مرقوم ہے: ’’قد انزل اﷲ الیکم ذکرا رسولا یتلوا علیکم…الخ!(طلاق:۱۰،۱۱)‘ ‘ ذکر قرآن مجید کا دوسرا نام ہے اور اس کا نزول بہت سی آیات میں آیا ہے چودھویں پارہ کے تین مقام ملاحظہ ہوں۔ انا نحن نزلنا الذکر (حجر:۹) یا ایہا الذی نزل علیہ الذکر (حجر:۶) وانزلنا الیک الذکر (نحل:۴۴) وہذا ذکر مبارک انزلناہ (انبیائ:۵۰) أنزل علیہ الذکر (ص۸) ان الذین کفرو بالذکر لما جائہم وانہ لکتاب عزیز (حم سجدہ:۴۱) ان ہو الاذکر وقرآن مبین (یٰسین:۶۹) پہلی، تیسری اور چوتھی آیت میں نزول ذکر کی منجانب اللہ صراحت ہے۔ چھٹی اور ساتویں میں ذکر کا قرآن ہونا مصرح ہے۔