والروح زندہ آسمان پر چلے جائیں گے کیونکہ ان کا قول تھا لا یموت رسول اﷲ (دارمی) یعنی آنحضرت کو موت نہیں آئے گی۔ ان کا یہ شبہ حضرت ابو بکرؓ کے خطبہ سے دفع ہوا،رہا امام حسنؓ کا خطبہ وہ تو بالکل صاف ہے۔ روح عیسیٰ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان نہیں ہے۔ بلکہ روح حضرت عیسیٰ کا نام صفاتی قرآن میں آیا ہے پوری عبارت امام حسنؓ کے خطبہ کی یہ ہے: ’’ولقد قبض فی اللیلۃ التی عرج فیہا بالروح عیسیٰ بن مریم (طبقات ابن سعد)‘‘ یعنی حضرت علیؓ کا قتل اسی شب میں ہوا ہے جس شب کو حضرت روح اﷲ عیسیٰ بن مریم عیسیٰ علیہ السلام کو (سع الجسم والروح) آسمان پر چڑھائے گئے تھے۔ حافظ سیوطی نے تفسیر درمنثور میں اس کو یوں نقل کیا ہے۔ قتل لیلۃ اسریٰ بعیسیٰ ولیلۃ قبض موسیٰ (از حاکم ج۲ ص۳۶) یعنی امام حسن نے کہا کہ جس شب میں حضرت کو آسمان پر لے جایا گیا اور جس شب کو حضرت موسیٰ کی جان نکالی گئی تھی اسی شب کو میرے والد کو شہادت ملی۔ پس یہ ہماری دلیل ہوئی نہ مخالف کی۔
داعی… حضرت سرور کائناتﷺ کی توہین کے مرتکب ہونے سے بچئے۔ آپ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو ہزار برس سے آسمان پر زندہ ہوں۔ غیرت کی جا ہے عیسیٰ زندہ ہوں آسمان پر مدفون ہوں زمین میں شاہ جہاں ہمارا۔
مجیب… آپ کے مرزا صاحب نور الحق (حصہ اوّل ص۵، خزائن ج۸ ص۶۹) میں فرماتے ہیں: ’’یہ موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لاویں کہ وہ زندہ آسمان میں موجود ہے اور مردوں میں نہیں مگر ہم قرآن میں بغیر وفات کے عیسیٰ کے کچھ نہیں پاتے۔‘‘ مرزا قادیانی کی یہ تفریق (کہ عیسیٰ کو مردہ کہا اور موسیٰ کو زندہ) بتا رہی ہے کہ مرزا قادیانی حضرت موسیٰ کو جسمانی زندگی سے آسمان پر زندہ سمجھتے تھے۔ پس جواب بالقلب سنئے۔
حضرت سرور کائناتﷺ کی توہین کے مرتکب ہونے سے اے مرزائیو۔ بچو آپﷺ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت موسیٰ تین ساڑھے تین ہزار برس سے آسمان پر زندہ ہوں؟
غیرت کی جا ہے موسیٰ زندہ ہوں آسمان پر
مدفون ہوزمین میں شاہ جہاں ہمارا
مرزائیو! غیرت کی جا نہیں ہے بلکہ ہمارے سرور کائناتﷺ کا زیر زمین مدفون ہونا کمال عزت ہے سنئے۔