تواضع قبل للملک ارفع حکمتہ (جامع صغیر للسیوطی ج۲ص۱۲۷)‘‘ یعنی بندہ جب تواضع کرتا ہے تو فرشتہ موکل کو حکم ہوتا ہے کہ اس کی حکمت یعنی تواضع کو لے کر چڑھ آ۔ کلمات عباد وافعال حسنہ واعمال صالحہ کا فرشتوں کے ذریعے سے آسمانوں پر جانا بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے۔ صحیح مسلم میں ہے: ’’یرفع الیہ عمل الّلیل قبل عمل النہار…الخ!‘‘ اور صحیح بخاری میں ہے:’’ثم یعرج الیہ الذین باتوافیکم…الخ!‘‘ ان مثالوں سے جس طرح رفع کا صلہ الیٰ مذکور ہونے کے باعث، شیء مذکور کا مدخول الیٰ کی طرف مرفوع ہونا ثابت ہوا اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی وارد ہوا ہے: ’’رفعہ اﷲ الیہ (نسائ:۱۵۸) رافعک الی (آل عمران:۵۵) جس کے معنی ہوئے کہ عیسیٰ کا رفع بجسدہ وبحیٓوتہ مدخول الی یعنی سماء کی طرف ہوا۔ ارتفاع الی اﷲ وصعود الی السماء متسادق فی المعنی بین کما ذکرتہ۔ اور رافعک میں مخاطب کی ضمیر منادیٰ یعنی عیسیٰ کی طرف راجع ہے اور اسم عیسیٰ معبر ہے جسم مع الروح سے کیونکہ محض روح بغیر تعلق بدن کے قابل تسمیہ نہیں ہوتی۔ پس اس ضمیر سے حضرت عیسیٰ کا رفع جسد مع الروح ثابت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ’’ناشردعوت‘‘ کا بناوٹی قاعدہ مذکورہ غلط ثابت ہوا۔ اور رفع سے مراد رفع الی السماء مع الجسد والروح کا ہونا کالشمس فی نصف السماء ظاہر وباہر ہوا والحمد ﷲ۔
سوال… حضرت عمر نے وفات نبوی کے وقت فرمایا تھا رفع کما رفع عیسیٰ (جج الکرامتہ ص۱۰۱) اور امام حسنؓ نے حضرت علیؓ کی وفات کے وقت خطبہ دیا تھا کہ جس رات کو حضرت علی کی وفات ہوئی ہے وہ رات وہ ہے کہ عرج فیہا بروح عیسیٰ (طبقات ابن سعد ج۳ ص۲۱) ان سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ یہاں مر گئے تھے اور ان کی روح کا رفع الی اﷲ ہوا ہے اس کا کیا جواب ہے؟
جواب… کتاب جج الکرامۃ میں حضرت عمرؓ کا قول بلاسند کے مذکور ہے بلکہ اس کتاب کا حوالہ تک ندارد ہے جہاں سے یہ قول نقل کیا گیا ہے۔ البتہ حضرت عمر کا قول سند کے ساتھ مسند دارمی ص۲۳ میں یوں مروی ہے۔ لکن عرج بروحہ کما عرج بروح موسیٰ یعنی جیسے حضرت موسیٰ مرے تھے اور ان کی روح کی معراج ہوئی تھی۔ اسی طرح آنحضرت کی روح کی بھی۔ معلوم ہوا کہ کتاب جج الکرامہ میں بجائے موسیٰ کے عیسیٰ غلط لکھا گیا ہے۔ اور اگر لفظ عیسیٰ صحیح ہے تو اس میں رفع الیٰ السماء مرقوم ہے۔ جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم وروح کے ساتھ رفع ثابت ہوتا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ حضرت عمر کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت بھی اسی طرح مع الجسم