فالرفع فی الاجسام حقیقۃ فی الحرکۃ والانتقال وفی المعانی علی ما یقتضیہ المقام یعنی لفظ رفع جسموں کے متعلق حقیقی معنے کی رو سے حرکت اور انتقال کے لئے ہوتا ہے اور معانی کے متعلق جیسا موقع ومقام ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ورفعنا فوقکم الطور (بقرہ:۶۳)‘‘ یہاں رفع کا فاعل اللہ ہے اور مفعول پہاڑ ہے جو جسم والا ہے اور مراد مجسم پہاڑ کو نیچے سے اوپر حرکت دینا اور بنی اسرائیل کے سروں پر چھت کی طرح اٹھانا ہیں۔ اس کی تائید سورہ اعراف کی اس آیت سے ہوتی ہے: ’’واذ نتقنا الجبل فوقہم کانہ ظلۃ وظنو انہ واقع بہم (بقرہ:۱۷۱)‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس وقت اٹھایا ہم نے پہاڑ ان کے اوپر جیسے سائبان اور ڈرے کہ وہ گرے گاان پر نیز فرمایا: ورفع ابویہ علی العرش (یوسف:۱۰۰) یعنی یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت کے اوپر بٹھایا۔ یہاں ابو ین کا بجسدہما تخت کے اوپر مرفوع ہونا مراد ہے اور جہاں رفع کا صلہ الی مذکور ہو وہاں معنے شے مذکور کا مدخول الی کی طرف مرفوع ہونا ہوں گے۔ بولتے ہیں رفعہ الی الحاکم، رفعتہ الی السلطان، قال ابو ہریرۃ لسارق التمرلائرفعنک الی رسول اﷲ (بخاری) ای لاذہبن بک الشکوک یقال رفعہ الی الحاکم اذا احضر للشکوری (فتح الباری شرح بخاری ص۴۳۱) میں تجھ کو حاکم بادشاہ، رسول اﷲﷺ کے پاس پکڑ لے جا کر تیری شکایت کروں گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ (فاطر:۱۰)‘‘ اس آیت میں رفع وصعود دو لفظ آئے ہیں جو ہم معنی ہیں اور صلہ الیٰ بھی مذکور ہے پس کلمہ کا عمل صالح کے ساتھ مدخول الیٰ یعنی اللہ کی طرف آسمان پر جانا صاف ثابت ہے جیسا کہ حدیث ابن مسعود میں وارد ہے: ’’اخذہن ملک فجعلہن تحت جناحہ ثم صعدبہن الی السماء (ابن جریر، ابن کثیر، فتح البیان، حاکم، بیہقی، طبرانی، وغیرہ)‘‘ یعنی ان کلمات کو فرشتہ اپنے بغل میں دا بکر آسمان پر لے چڑھتا ہے۔ نیز حدیث ابن عباسؓ میں وارد ہے: ’’اذا تواضع العبدرفعہ اﷲ الی السماء السابعۃ (منتخب کنز برحاشیہ مسند احمد ج۱ ص۱۶۰)‘‘ یعنی بندہ جب تواضع کرتا ہے تو اللہ اس تواضع کو ساتویں آسمان کے اوپر اٹھا لیتا ہے۔ کتاب الاخلاق کے باب حکمت سے ایک تواضع بھی ہے اس امر کو نیز حدیث مذکور کے مطلب کو ایک دوسری حدیث واضح کرتی ہے جو انہیں ابن عباسؓ سے طبرانی میں مروی ہے۔ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:’’فاذا