فیصلہ کی آسان صورت یہ ہے کہ کتب لغت عربیہ میں توفیٰ کو تلاش کرو۔ اگر یہ وفا کے ضمن میں مذکور ہو تو اسے وفا سے مشتق مانو۔ پھر جملۂ تصریفات وفاء پر نظر کرو۔ تو تم کو آفتاب نیمروز کی طرح معلوم ہوگا کہ اس کے معنی پورا کرنے، پورا لینے کے ہیں اور چونکہ اس کے مفہوم میں رفع ، موت اور نیند بھی داخل ہیں اس لئے اس لفظ کا اطلاق رفع کے قرینہ پر رفع کے لئے اور موت کے قرینہ پر موت کے لئے اور نیند کے قرینہ پر نیند کے لئے ہوگا۔ صرف اس اعتبار سے کہ توفی جنس ہے۔ اور رفع ، موت، اور نوم اس کی نوعیت ہیں۔ نہ اس لئے کہ یہ لفظ بحسب الوضع موت کے لئے موضوع ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ پس ضابطہ مخترعہ غلط ہے اس کی تفصیل آپ کو ظہور امام، کے جواب میں ملے گی فانتظرہ۔
داعی… قرآن مجید میں جو حضرت عیسیٰ کے متعلق ’’رافعک الیّٰ‘‘ اور بل رفعہ اﷲ میں رفع کا لفظ استعمال ہوا ہے اور جس میں خدا تعالیٰ فاعل حضرت عیسیٰ (ذی الروح) مفعول ہیں اس کے معنی آسمان پر اٹھا لے جانے کے نہیں بلکہ مقرب بنانے اور درجات بلند کرنے کے ہیں۔ (ص۱)
مجیب… یہ ضابطہ مخترعہ بھی اوپر کے ضابطہ مستحدثہ کی طرح بے ثبوت اور غلط ہے ورنہ وہی محذور لازم آئے گا۔ جو اوپر مذکور ہوا یعنی بہت سی آیات قرآنیہ مثلاً رفع بعضہم درجات (بقرہ:۵۳) نرفع درجات من نشاء (انعام:۵۳ ویوسف) رفع بعضکم فوق بعض درجات (انعام:۱۶۵) اور ورفعنا بعضہم فوق بعض درجات (الزخرف:۳۲) یرفع اﷲ الذین آمنو منکم والذین اتو العلم درجات (مجادلہ:۱۱) وغیرہا بوجہ تطویل یا حشو کے فصاحت سے گر جائیں گی۔
کیونکہ ان آیات میں رفع کے مشتقات بولے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ فاعل ہے اور ذی روح (پیغمبران واہل علم ومومنین وغیرہ) مفعول ہیں اور پھر لفظ درجات بھی ذکر کیا گیا ہے پس اگر ضابطہ مخترعہ مذکورہ کے مطابق رفع کے معنی درجات بلند کرنے کے ہی ہیں تو لفظ درجات ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ آیات مذکورہ میں رفع کے معنی معین کرنے کے لئے ’’درجات‘‘ بطور قرینہ کے مذکور ہوا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ رفع کے معنے حسب قرائن کئے جائیں گے۔ کیونکہ لعنت میں اس کے حقیقی اور وضعی معنی ’’اوپر کو اٹھانا‘‘ ہیں۔ پس جہاں رفع کا مفعول کوئی جسم ہوگا وہاں معنے اس جسم کو نیچے سے اوپر کو حرکت دینا اور اٹھانا ہوں گے۔ لغت کی کتاب مصباح منیر میں ہے۔