الیٰ السمائ‘‘ (تحت آیت انی متوفیک) یعنی توفی بمنزلہ جنس ہے جس کے تحت میں کئی نوع ہیں۔ موت، رفع الی السماء معلوم ہواکہ توفی کے معنی وضعی موت کے نہیں ہیں بلکہ موت اس کی ایک نوع ہے جیسے حیوان جنس ہے اور اس کے تحت بہت سی نوع ہیں۔ آدمی گھوڑا اور کبوتر وغیرہ، اسی طرح تو فی جنس ہے۔ اور اس کی نوع نوم، موت، رفع ہیں۔ پس جنس کو کسی نوع میں معین کرنے کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں قرینہ موت یا موت کے لوازمات کا ہوگا وہاں توفی کے معنی موت کے ہوں گے۔ نہ یہ کہ توفی کا لفظ موت کے لئے موضوع ہے اور جہاں قرینہ نیند یا نیند کے مقتضیات کا ہوگا وہاں تو فی کے معنی نوم کے ہوں گے اور جہاں قرینہ رفع کا ہوگا وہاں رفع کے معنی ہوں گے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انی متوفیک کو ورافعک الی کے ساتھ ملایا ہے اس لئے عیسیٰ کی تو فی بالرفع الی السماء متعین ہوگی ۔ مفصل بحث رسالہ ظہور امام کے جواب میں ملاحظہ ہو۔
داعی… توفی کے معنی جبکہ خدا تعالیٰ فاعل اور ذی روح یعنی انسان مفعول ہو اور توفی باب تفعل سے فعل ہو۔ اور قرینہ نیند وغیرہ کا موجود نہ ہو تو سوائے قبض روح یعنی موت کے اور کوئی معنی نہیں ہوتے۔
مجیب… یہ ضابطہ خود ساختہ بالکل غلط ہے اہل زبان ائمہ لغت کسی سے بھی اس ضابطہ کا ثبوت نہیں ہے۔ ائمہ لغت توفی کے معنی موت کے مجازی قرار دیتے ہیں دیکھو علامہ زمحشری جو فن لغت وادب کے امام ہیں۔ اساس البلاغۃ (جو لغت کی قدیم ترین کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اس) میں لکھتے ہیں ومن اعجاز توفی فلان وتوفاہ اﷲ ادرکتہ الوفات۔ تاج العروس شرع قاموس میں ہے: ومن المجاز ادرکتہ الوفات ای الموت والمنیۃ وتوفی فلان اذا مات۔ پس اہل لغت کا توفی کے معنی موت کے مجازی لکھنا ضابطہ خود ساختہ مذکورہ کی صاف تردید کررہا ہے۔ کیونکہ توفی کے معنی حسب ضابطہ مذکورہ اگر موت کے ہی ہوں تو پھر کسی قرینہ حالیہ یا مقالیہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس صورت میں آیت قرآنی: ’’ اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا (زمر:۴۲)‘‘ میں جبکہ توفی باب تفعل سے ہے اور فاعل اللہ موجود ہے اور مفعول (انفس ذی روح انسان) بھی مذکور ہے اور قرینہ نیند وغیرہ کا بھی اس فقرہ میں نہیں ہے‘ اس صورت میں اگر سوائے موت کے کوئی دوسرے معنی نہیں ہوسکتے۔ توحین موتہا کا جملہ تطویل ہوگا یا حشو اور زاید بہر صورت آیت فصاحت سے گر جاتی ہے۔ والعیاذ باﷲ اس کے