اب آئیے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اﷲ کی عبارت پر غور کیجئے۔ یہاں بھی قادیانی دجل وفریب کا وہی عالم نظر آئے گا۔
حضرت مولانا مرحوم ان اﷲ خلق سبع ارضین فی کل ارض آدم کادمکم الحدیث کے معانی عالیہ پر بحث کرکے یہ ثابت فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی ختم المرسلینی عالم گیر، اور جمیع طبقات ارض کو محیط ہے۔ اس سلسلہ میں آغاز کلام یوں فرماتے ہیں کہ:
خیال… بالذات کچھ فضیلت نہیں‘‘ معنے ظاہر ہیں کہ نفس تاخروتقدم زمانی کوئی وجہ فضیلت نہیں آگے چل کر حضرتؒ اپنی تقریر کا خلاصہ یوں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’بطور خلاصہ تقریر وفذلکم دلائل یہ عرض ہے کہ ہر زمین میں اس زمین کے انبیاء کا خاتم ہے۔ پر ہمارے رسول مقبول عالم ان سب کے خاتم، آپ کو ان کے ساتھ وہ نسبت ہے جو بادشاہ ہفت اقلیم کو بادشاہان اقالیم خاصہ کے ساتھ نسبت ہوتی ہے۔ جیسے ہراقلیم کی حکومت اس اقلیم کے بادشاہ پر اختتام پاتی ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس کو بادشاہ کہا، آخر بادشاہ وہی ہوتا ہے جو سب کا عالم ہوتا ہے، ایسے ہی ہر زمین کی حکومت نبوت اس زمین کے خاتم پر ختم ہوجاتی ہے۔ پر جیسے ہر اقلیم کا بادشاہ باوجود یکہ بادشاہ ہے پر بادشاہ ہفت اقلیم کا محکوم ہے ایسے ہی ہر زمین کا خاتم اگرچہ خاتم ہے۔ پر ہمارے خاتم النّبیین کا تابع، جیسے بادشاہ ہفت اقلیم کی عزت اور عظمت اپنی اس اقلیم کی رعیت پر حاکم ہونے سے جس میں خود مقیم ہے۔ اتنی نہیں سمجھی جاتی جتنی بادشاہان اقالیم باقیہ پر حاکم ہونے سے سمجھی جاتی ہے۔ ایسے ہی رسول اﷲﷺ کی عزت اور عظمت فقط اس زمین کے انبیاء کے خاتم ہونے سے نہیں سمجھتی جاسکتی، جتنے خاتمین اراضی سافلہ کے خاتم ہونے سے سمجھی جاتی ہے۔‘‘
(تخدیر الناس ص۳۵،۳۶)
صاحبو! یہ عبارت غور سے پڑھو اور انصاف سے بتائو مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی عبارت کے کسی فقرہ سے بھی قادیانی مدعیٰ ثابت ہوتا ہے۔ کسی فقرہ سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا سے مرحوم آنحضرتﷺ کے بعد نئے مستقل یا غیر مستقل، نبیوں کا ظہور آنحضرتﷺ کی ختم المرسلینی کے منافی نہیں جانتے؟ یہ ایک کھلا ہوا اور شرمناک بہتان نہیں تو اور کیا ہے؟
مگر صاحبو! جن لوگوں نے قرآن حکیم کے ساتھ کھیلنا اور اس کی آیات میں کتربیونت اپنا وتیرہ ٹھہرا لیا ہو، وہ ایسے بہتان کب خاطر میں لائیں گے۔ مولوی غلام احمد صاحب خفانہ ہوں۔ میں ثابت کردوں گا کہ خود جناب نے بھی قرآن حکیمﷺ کی ایک آیہ کریمہ میں کتربیونت کی ہے۔ مولوی صاحب خدا سے ڈرو، معلوم ہے کہ قرآن حکیم میں کتربیونت، جعل وتحریف، کمی وبیشی،