پس خاتم الرسل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد ان کی کامل تابعداروں کو بطریق تبیعت ووراثت کے کمالات نبوت کا حاصل ہونا ان کی خاتمیت کے منافی نہیں: ’’ فلا تکن من الممترین‘‘ (مکتوب ج۱ ص۳۰۱)
اس مکتوب میں حضرت مجددؒ نے جن حقائق ومعارف کی جانب اشارہ فرمایا ہے وہ ایسے تھے کہ اگر مولوی غلام احمد صاحب اور ان کے ہم نواراستبازی کے ساتھ ان پر غور کرتے تو کبھی ایسا شرمناک بہتان ان پر نہ جوڑتے۔ حضرت مجددؒ فرماتے ہیں:
۱… نبوت میں ظلیّت کی آمیزش نہیں۔
۲… یہ قرب بالاصالتہ صرف انبیاء علیہم السلام کو عطا ہوتا ہے۔
۳… یہ منصب انہیں بزرگواروں کے ساتھ خاص ہے۔
۴… یہ منصب حضرت سید البشر علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ پر ختم ہوچکا۔
۵… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے۔
۶… ان کو شریعت محمدیہ کا اتباع کرنا پڑے گا۔
۷… جس طرح دولت مندوں کے خوان کرم سے ان کے خادموں کو بچاء کھچا مل جاتا ہے، انبیاء علیہم السلام کے خوان نبوت سے بھی ان کے سچے خادموں اور پیرووں کو ان کا پس خوردہ مل جاتا ہے، یعنی ان کے علوم ومعارف اور ان کے کمالات سے ان کے سچے غلاموں اور ان کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹا دینے والوں کو بھی بقدر ظرف واستعداد حوصلہ کچھ حصہ مل جاتا ہے۔
صاحبو، خدارا بتائو کہیں حضرت مجدد علیہ الرحمۃ نے یہ بھی فرمایا کہ نبی کی اتباع کامل اس کے پیرو کو نبی بنا دیتی ہے؟ کہیں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ آنحضرتﷺ کی متبعین کاملین نبوت کا منصب پاسکتے ہیں اور نبوت اتباع وپیروی، کسب وعمل ریاضت ومجاہدہ سے مل کیسے سکتی ہے۔ وہ مقام حصول نہیں، مقام وصول ہے۔ دو چیزیں ہیں۔ نبوت اور علوم ومعارف نبوت جن کی تعبیر کمالات نبوت سے بھی کی گئی ہے۔ علوم ومعارف نبوت میں سے جاں سپاران راہ اتباع کو بہرہ بقدر ظرف وحوصلہ ملتا ہے۔ مگر نبوت نہیں ملتی یہ آنحضرتﷺ پر ختم ہوگئی اور ظاہر ہے کہ علوم معارف سے بہرہ پانا ختم المرسلینی کے منافی نہیں۔ معارف سے بہرہ کتنا ہی۔ گراں وگرامی، ہو نبوت نہیں بن جاسکتا۔ یہ ہے حقیقت حضرت مجددؒ کے مکتوب سامی کی۔ اس کو مولوی غلام احمد مرزائی اس دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ سبحان اﷲ!