یہ مولوی صاحب جب اتنے دلیر وبے جگر ہیں کہ سرور کائناتﷺ اور آپ کی عزیز بیوی ام المومنین عائشہؓ پر بہتان جوڑتے نہ جھجھکتے تو اولیاء اﷲ اور علمائے امت کو کب خاطر میں لاتے! خاتم المرسلین آخر النّبیین محمد ن الامینﷺ کی پاک حدیثیں، اور صحابہ‘ علی الخصوص ام المومنین عائشہؓ کے آثار آپ نے سن لئے اور مولوی غلام احمد قادیانی کی راستباز کے منظر دیکھ دئیے، اب آئیے دیکھئے اولیاء اﷲ رحمہم اﷲ کے ساتھ ان کا کیا برتائو ہے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ایک مکتوب گرامی سے یہ ثابت کرنے کی سعی بے سود کی گئی ہے کہ آپ نے بھی خاتم النّبیین کے وہی معنی بیان فرمائے ہیں جو نبوت مرزائیہ کے نقیبوں نے بتائے اور بتا رہے ہیں۔ در پردہ یہ کہنا مقصود ہے، کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے بعد جدید نبیوں کا آنا جائز بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ جدید نبی چونکہ ظلی ہوں گے اور بہ تبیعت نبوت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف تحیہ) آئیں گے ان کا آنا آنحضرتﷺ کی خاتم النّبیین کے منافی نہ ہوگا۔
یقین کیجئے۔ ان قادیانی صاحبوں کی بے دھڑک کتربیونت دیکھ کر روں کانپ اٹھتی ہے حضرت مجدد الف ثانی اور انکار خاتم النّبیین آنحضرتﷺ اﷲ، اﷲ یہ قادیانی حضرات بڑے دل گردے کے لوگ ہوتے ہیں۔ حضرت مجددؒ کے مکتوب سے ایک ٹکڑا لے لیا، باقی ٹکڑے پی گئے۔ لوگو پورا مکتوب پڑھو اور انصاف کرو، حضرت مجددؒ فرماتے ہیں۔
’’حمدوصلوٰۃ کے بعد میرے فرزند مولانا امان اﷲ پر واضح ہو کہ نبوت سے مراد وہ قرب الٰہی ہے جس میں ظلیت کی آمیزش نہیں اور اس کا عروج حق تعالیٰ کی طرف میلان رکھتا ہے اور اس کا نزول خلق کی طرف یہ قرب بالا صالۃ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو نصیب ہے اور یہ منصب انہی بزرگواروں کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ منصب حضرت سید البشر علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام پر ختم ہوچکا ہے۔ حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نزول کے بعد حضرت خاتم المرسلﷺ کی شریعت کے تابع ہوں کے۔
حاصل کلام یہ کہ تابعداروں اور خادموں کو اپنے مالکوں اور صاحبوں کی دولت اور پس خوردہ سے حصہ حاصل ہوتا ہے۔ پس انبیاء علیہم الصلوٰۃ کے قرب سے ان کے کامل تابعداروں کو بھی حصہ حاصل ہوتا ہے اور اس مقام کے علوم ومعارف اور کمالات بھی بطریق وراثت کامل تابعداروں کو نصیب ہوتی ہیں۔
خاص کند بندہ مصلحت عام را