واقعہ یہ ہے کہ کچھ کوتاہ فہم سادہ مزاج حدیث لا نبی بعدی کے معنی یہ سمجھ رہے تھے کہ اب نہ کسی کو نئے سر سے نبوت ملے گی اور نہ کسی ایسے نبی کا ظہور ممکن ہے جس کو نبوت آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے مل چکی ہو۔ ایسے کم فہم لوگوں کے لئے ان بزرگوں نے فرمایا کہ اگر حدیث لا نبی بعدی۔ تم لوگوں کے لئے وجہ حیرت بن رہی ہے تو ایک خاتم النّبیین ہی پر اکتفا کرو کہ اس سے بھی مدعا حاصل ہوجاتا ہے، ورنہ تمہاری کوتاہ اندیشی تم سے نزول عیسیٰ کا انکار کرادے گی۔ حالانکہ ان کا نزول یقینی ہے اور وہ آنحضرت سے پیشتر بھی نبی تھے اور آنحضرت کے بعد بھی نبی ہوں گے(مگر یہ وہی نبوت ہوگی جو آنحضرتﷺ کی بعثت سے پیشتر انہیں مل چکی تھی، کوئی نئی نبوت نہ ہوگی۔)
اب آثار اور احادیث صحیحہ مرفوعہ کے درمیان کوئی تعارض نہ رہا۔ یہ ہم نے کوئی نئی بات نہیں کہہ دی بلکہ تمام اکابر مفسرین واعیان علمائے دین نے اس نکتہ کا ذکر فرمایا ہے۔ تفصیل کے لئے ہمارے ٹریکٹ ختم نبوت کا انتظار کیجئے۔
مرزائی مولوی صاحب! یہ بات خاطر عاطر سے کبھی نہ جائے کہ جب احادیث نبویہ اور آثار صحابہ میں تعارض نظر آئے آثار صحابہ تابع کردئیے جائیں گے احادیث کے، اور ان کی ایسی شرح کی جائے گی جو ان کو احادیث کے مطابق کردے۔ یہ سخت بے ایمانی ہے کہ صحیح اور مرفوع مرفوع احادیث کے ہوتے آثار سے استناد کیا جائے اور پھر ان کی ایسی تاویل کی جائے جو ان کو احادیث صحیحہ سے ٹکراتی رہے۔ مولوی صاحب
اصل دین آمد کلام اﷲ معظم داشتن
پس حدیث مصطفیٰ برجان مسلم داشتن
مولوی غلام احمد صاحب، اب آئیے آپ کی پیش کردہ ’’حدیث‘‘ لو عاش ابراہیم پر بھی ایک نظر ہوجائے۔ آپ لوگوں کو شرم نہیں آتی مسلمانوں کو فریب دیتے‘ اور اس پر مجاہد اور داعی حق ہونے کے بلند بانگ دعوے؟ یہ کہاں کی راست بازی ہی کہ صحیح حدیثوں کو پردۂ خفا میں رکھا جائے یا ان کی تاویلیں کی جائیں اور ضعیف ومنکر حدیثوں کو شہرت دی جائے اور ان سے استناد کیا جائے؟دیکھئے حدیث ولو عاش (ابراہیم) لکان صدیقاً نبیاً سے متعلق کہیں دور جانے کی حاجت نہ تھی، سنن ابن ماجہ جس سے آپ نے یہ حدیث نقل کی ہے۔ اس کے حاشیہ ہی پر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ یہ حدیث درخور استناد وقابل اعتماد نہیں اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابو شیبیہ ابراہیم بن عثمان متروک الحدیث ہے۔ مگر اپنی دیانت ملاحظہ فرمائیے کہ اس بات کو آپ اس طرح پی گئے ہیں گویا قابل التفات تھی ہی نہیں۔