چیست یاران طریقت بعد ازیں تدبیرما؟
مولوی غلام احمد صاحب پڑھئے لسان الغیب کا وہ شعر ۔ الا یا ایہا الساقی ادر کأساونا ولہا۔ کہ عشق آسان نمود اوّل ولے افتاد مشکلہما ! مولوی صاحب
درکفے جام شریعت ودر کفے سندان عشق
ہر ہو سنا کے نہ اندوجام وسندان باختن
احادیث نبویہ آثار صحابہ سے کھیلنا آپ پر زیبا نہیں:
سبک زجائے نہ گیری کہ پس گراں گہرست
متاع من کہ مبادش نصیب ارزانی
آئیے اصل حقیقت ہم آپ کو بتائیں۔
اول تو اس اثر (اثر عائشہؓ) کی طرف منسوب سخت ناقابل وثوق ہے‘ یقین کے ساتھ کوئی اہل فن اس قول کو حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔ جرأت ہوتو آئیے اور سند بتا کے اس پر ارزوئے قواعد اہل فن بحث کیجئے اور اسے قابل وثوق ثابت کیجئے۔دوسرے اس ایک اثر کو صحیح اور مرفوع حدیثوں کے مقابلہ میں پیش کرنا کہاں کی دین پرستی ہے؟ ایک مجہول الاسناد اثر کو بخاری ومسلم اور اصحاب اسنن کی صحیح اور مرفوع حدیثوں کے مقابلہ میں جو متعدد صحابیوں اور مختلف طرق سے آئی ہیں۔‘‘ پیش کرتے آپ ذرا نہ جھجکے، قیامت کردی اور پھر حضرت عائشہؓ ہی سے تو انقطاع نبوت ورسالت والی دو حدیث بھی آئی ہیں جو اوپر مذکور ہوئی‘ فرماتی ہیں: ’’عن النبیﷺ انہ قال لا یبقی بعدہ من النبوۃ شیء الاالمبشرات الحدیث (کنزبروایت احمدؒ وخطیب)‘‘ اس حدیث میں کس صراحت وقطعیت کے ساتھ وارد ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا کوئی حصہ کوئی جز باقی نہ رہے گا‘ بجز اچھے خوابوں کے اور ظاہر ہے کہ اچھا خواب کس کو نبی اور رسول نہیں بنا دیتا۔ جب حضرت عائشہؓ خود ایک ایسی صاف اور صریح حدیث روایت کررہی ہیں تو کیونکر باور کرلیا جائے کہ انہوں نے یہ نبوت ظلی والی ٹچ آپ کی خاطر رکھنے کو لگا دی؟
مولوی صاحب‘ درمنشور ہی میں تو حضرت مغیرہ بن شعبہ کا اثر بھی منقول ہے اسے کیوں آپ نے نظر انداز فرمایا؟ آپ کو اپنے مدعیٰ کے لئے دو دو شہادتیں مل جاتیں۔
مجھ سے تم چھپ نہ سکے‘ جان جہاں دیکھ لیا
تم جہاں جاکے چھپے ہم نے وہیں دیکھ لیا