حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اے لوگو آنحضرتﷺ کو خاتم النّبیین تو کہو مگر یہ نہ کہو کہ آپﷺ کے بعد نبی نہ ہوگا معلوم ہوا خاتم النّبیین آئندہ ظلی نبوت کو نہیں روکتا‘‘ مولوی صاحب کا یہ فقرہ بس بیت الغزل ہے۔ سبحان اﷲ!
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا مرے حق میں
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعان کا
مولوی مرزائی داد تو آپ کے اندازہ سے زیادہ آپ کو ملے گی۔ لیکن اگر حضرت خلیفہ المسیح کے تیور میلے نظر آئے تو؟
کیوں صاحب حضرت عائشہؓ نے لوگوں کو لا نبی بعدہ کہنے سے کیوں روک دیا؟آپ فرمائیں گے سبب ظاہر ہے۔ اس لئے روک دیا کہ اس فقرہ لا نبی بعدہ سے تو نبوت ظلی کی نفی بھی ہوجاتی تھی جو ام المومنین کو منظور نہ تھی۔ وہ خاتم النّبیین کے لفظ سے اس غلط فہمی کے پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ تھا‘ اسے برقرار رکھا۔
غلام قادیانی‘ عائشہ صدیقہؓ نے لا نبی بعدہ سے نبوت ظلی کا انتفا سمجھا، آپ کے نزدیک انہوں نے صحیح سمجھا‘ ہماری کیا مجال جو ہم ام المومنین کے فہم عالی سے اختلاف کریںاب یہ بات طے ہوگئی کہ لا نبی بعدہ سے نبوت ظلی کی نفی بھی ہوجاتی ہے اور مقرر ہوجاتی ہے۔
اب فرمائیے کہ خود رسول اﷲﷺ نے بھی تو یہی فقرہ بعینہاستعمال فرمایا ہے۔ ایک ضمیر غائب ومتکلم کا فرق ہے اور یہ فرق ہونا ہی تھا‘ جب آپﷺ گفتگو فرمائیں گے تو فرمائیں گے ’’کوئی نبی میرے بعد نہ ہوگا۔‘‘ فقرہ وہی رہا ترکیب وہی رہی۔ اب بقول صدیقہؓ کے نیز بقول آپ کے آنحضرت ﷺ نے لا نبی بعدی فرما کر ظلی نبوت کی نفی بھی فرما دی! اب کوئی ظلی نبی بھی آنحضرتﷺ کے بعد نہیں آسکتا۔ چلیئے قصہ پاک ہوا، اب جھگڑا کاہے کا؟
شکر ﷲ میان من وتوصلح فتاد
جو ربان رقص کنان دست بہ پیمانہ زدند
اب ایک سوال البتہ بحث طلب رہ جاتا ہے۔ ایک طرف ام المومنین عائشہ کو (بہ پندار باطل مولوی غلام احمد) نبوت ظلی کے باب میں یہ اہتمام کہ وہ مسلمانوں کی زبان سے کوئی ایسا فقرہ سننا پسند نہیں فرمائیں۔ جس سے نبوت ظلی کا انقطاع بھی ٹپکتا ہو‘ دوسری طرف سرور دو عالمﷺ کا فرمان واجب الاذعان کہ اب نبوت ظلی بھی منقطع ہے اور آنحضرتﷺ کا فرمان کچھ ایسے مستند بزرگوں کی روایت سے ہم تک پہنچا ہے کہ بس اتنے ہی بن پڑے۔