اب تو غالباً مرزائی مولوی صاحب غالباً یہ نہ فرمائیں گے کہ خاتم النّبیین کے جو معنے آج کل کے عام مسلمان کرتے ہیں‘‘ وہ کسی مستند عالم اہل السنت والجماعت نے نہیں بیان کئے ہیں۔
جواب سوال نمبر۴
اس جواب میں تو مولوی مرزائی نے قیامت ہی کردی، فرماتے ہیں ’’جتنے مقامات پر قرآن حکیم یا احادیث نبویہ میں الفاظ ختم بی النّبییون اور لا نبی بعدی آئے ہیں، اتنے ہی ان کے جدا جدا معنی ہیں‘‘ بس انتہا ہوگئی۔ اب کتاب وسنت پر کس کو اعتماد رہے گا، جب ان کی پریشان بیانی کا یہ حال ہے کہ ایک ہی لفظ اور ایک ہی ترکیب اگر سو جگہ استعمال ہوئی ہے تو اس کے معانی بھی اتنے ہی ہیں۔ درست ہے جب تک کتاب وسنت کا سنگ گراں راہ سے نہ ہٹے گا۔ مرزا قادیانی اور ان کے مریدوں کے منصوبے بر روئے کار کیوں کر آئیں گے؟
اﷲ کے بندو، اﷲ سے ڈرو‘ جعل و تحریف کی یہ پر خطر راہ اگر کھل گئی تو دین متین کو کہیں پناہ نہ ملے گی۔ مگر یہ قیامت تک نہ ہوگا۔
یریدون لیطفئوا نور اﷲ بافواہہم واﷲ متم نورہ ولو کرہ الکافرون! اس جواب میں ایک اور قیامت کی ہے جناب مجاہد: فرماتے ہیں ہم احمدی وہی معنی مراد لیتے ہیں جو آنحضرتﷺ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور اولیاء امت نے بیان فرمائے ہیں۔ مولوی غلام احمد مرزائی صاحب آپ کی بے جگری کی جس قدر داد دی جائے کم ہے۔
قارئین کرام! آپ نے آنحضرتﷺ کے بتائی ہوئی معنی تو سن لیئے یہ چند حدیثیں جو نقل ہوئیں۔ خاتم النّبیین کے معنے بتانے میں کتنی روشن ہیں۔ حدیثیں اور بھی ہیں مگر اختصار منظور تھا‘ انہی پر اکتفا کیا گیا۔
صحابہ رسول نے خاتم النّبیین کے جو معنے سمجھے وہ بھی مذکور ہوئے‘ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، طلیحہ کے قصے بھی گوش زد ہوئے ہوں گے‘ مسیلمہ نے تو قیامت کردی تھی‘ اذانوں میں بڑی بلند آہنگی سے پڑھواتا: اشہد ان محمد الرسول اﷲ، مستقل نبوت کا کبھی دعویٰ نہ کیا۔ مگر پھر بھی باجماع صحابہ گردن زدنی قرار پایا۔
عائشہ صدیقہؓ ام المومنینؓ کے اثر کی جو شرح بیان فرمائی ہے۔ اس میں تو واقعی مولوی صاحب نے بے دھڑک جہاد کا ہاتھ دکھایا ہے‘ کیسی دل آویز تفسیر فرمائی ہے؟ فرماتے ہیں دیکھو