اﷲ اﷲ ان میں سے ہر شخص اپنے زمانہ کا صاحب اورنگ علم وکمال، صدر نشین بزم ایقان ومعرفت، آیہ رورع وتقویٰ، خزانہ علوم کتاب وسنت اور امیر المومنین حفظ ونقد تھا، ہم اخلاف امت وبیچارگان دورہ آخر تو ان ائمہ دین وکاملین علوم کی خدمات جلیلۂ علم ودین کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ ان کی نسبت بھی مولوی غلام احمد ’’عام مسلمان‘‘ فرما دیں تو بس انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھئے اور چپ ہو رہیے۔
ان تمام بزرگوں کی تصریحات اگر نقل کی جائیں تو ان کے لئے ایک دفتر مطلوب ہوگا، مگر ان کو ہم بالکل نظر انداز کر جانا بھی نہیں چاہتے۔ حافظ ابن کثیر، حافظ ابن حزم، قاضی عیاض، امام غزالیؒ کی تصریحات آپ کی نظر سے گزر چکی ہیں۔
حافظ ابن قیمؒ ’’الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’اگلی امتیں محدثین (وہ لوگ جن کو خدا شرف القاء وکلام بخشا ہے اگر چہ وہ نبی نہیں ہوتے) کی محتاج تھیں مگر امت محمدیہ کو اﷲ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے طفیل ان سے بھی بے نیاز فرما دیا۔ آنحضرتﷺ کے بعد نہ یہ امت کسی نبی کی حاجت مند رہی اور نہ کسی محدث کی، وہ ساری بزرگیاں، علوم اور نیکو کاریاں اگلے انبیاء میں پھیلی ہوئی تھیں۔ محمد رسول اﷲﷺ میں جمع کردیں:
اے تو مجموعہ خوبی بچہ نامت خوانم؟
شیخ عبد الغنی نابلسی شرح فصوص الحکم میں فرماتے ہیں: ’’اور کچھ شک نہیں کہ نبوت ورسالت اپنی تمام شکلوں اور صورتوں میں ہمارے نبیﷺ پر ختم ہوگئی، اب قیامت تک کسی کو نبوت یا رسالت نہ ملے گی۔‘‘ (ص۸۱) شیخ موصوف اپنے تالیف شرح فرائد میں لکھتے ہیں‘ قرآن مجید نے تصریح فرما دی کہ آنحضرتﷺ خاتم النّبیین اور آخر المرسلین ہیں… اور امت کا اس بات پر اجماع ہوگیا کہ یہ الفاظ اپنے ظاہر پر رکھے جائیں گے۔ (ان میں کوئی تاویل وتخصیص وغیرہ جائز نہ رکھی جائیں گی۔ )
امام المفسرین ابن جریر الطبریٰ فرماتے ہیں : ’’ولکنہ رسول اﷲ وخاتم النّبیین الذی ختم النبوۃ فطبع علیہا فلا تفتّح لا حد بعدہ الی قیام الساعۃ (تفسیر ج۲۲ ص۱۷)‘‘ {لیکن آنحضرتﷺ اﷲ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں وہ خاتم النّبیین جن پر نبوت ختم ہوگئی اور جن کے بعد اس پر مہر لگا دی گئی اب وہ آنحضرت کے بعد کسی کے لئے قیامت تک نہ کھلے گی۔}