کے عام مسلمان کرتے ہیں فرماتے ہیں: ’’قد انقطع الوحی وتم الدین او ینقص وانا حی‘‘ وحی منقطع ہوچکی، دین الٰہی مکمل ہوچکا، کیا یہ میری زندگی ہی میں نقصان پذیر ہوگا۔‘‘ (میری زندگی پھر کس دن اسلام کے کام آئے گی۔ (رواہ النسائی بہذا للفظ) ومعناہ فی الصحیحین، وکذا فی الریاض النضرۃ للطبری وتاریخ الخلفاء للسیوطی۔
آنحضرت ﷺ کے وصال کے موقع پر فرمایا: ’’الیوم فقد نا الوحی ومن عند اﷲ عزوجل الکلام (رواہ ابواسماعیل الحروی فی دلائل التوحید، کنزالعمال ج۴ ص۵۰)‘‘ آج وحی آسمانی ہم سے منقطع ہوئی اور اﷲ تعالیٰ کا کلام ہم سے رک گیا۔
’’ایک بار حضرت ابو بکر الصدیقؓ اور حضرت عمر بن الخطابؓ ام ایمنؓ سے ملنے کے لئے آئے حضرت انسؓ بھی ان کے ہمراہ تھے، ام ایمن ان صاحبوں کو دیکھ کر رونے لگیں، ان صاحبوں نے انہیں سمجھایا کہ ام ایمنؓ رونے کا کیا مقام ہے، آنحضرتﷺ کے لئے وہی بہتر تھا جو اﷲ تعالیٰ کے یہاں آپ کے لئے مقدر تھا۔ اس پر اس نیک بی بی نے کہا یہ تو میں جانتی ہوں، مجھے تو رونا اس بات پر آیا کہ آنحضرتﷺ کی رحلت کے ساتھ وحی آسمانی بھی منقطع ہوگئی۔ اس پر ان بزرگوں کی آنکھیں بھی اشک بار ہوگئیں۔‘‘ (کنز العمال ج۴ ص۴۸ وصحیح مسلم ج۲ ص۲۹۱)
مولوی غلام احمد صاحب: فرمائیں صدیق اکبر، فاروق اعظم، خادم رسول، اور ام ایمن کا زہدوتقویٰ ، علم وکمال، قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ صحابہ کرام ؓ کے اور اسمائے گرامی بھی اس باب میں لئے جاسکتے ہیں مگر بہ نیت اختصار ان کو ہم یہاں نہیں لکھتے، انجمن کے ٹریکٹ ختم نبوت اور مرزا قادیانی کا انتظار کیجئے۔
امیر المومنین فی الحدیث امام اہل الفن محمد بن اسمعیل البخاری، علم المحدثین امام مسلم، امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبل، امام دارالحجرۃ امام مالک بن انس وغیرہمؓ عنہم اجمعین۔ کی نسبت مولوی غلام احمد مرزائی کا کیا فتویٰ ہے؟ ان بزرگوں کو علماء کی صف میں جگہ ملے گی، یا (خاکم بدہن) عوام کی بھیڑ میں؟
پھر امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبریٰ، حافظ ابن حجر، حافظ ابن کثیر، حافظ قسطلانی، شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم، حجۃ الاسلام امام غزالی، قاضی عیاض صاحب شفائ، حافظ ابن حزم اندلسی، عارف باﷲ شیخ عبدالغنی نابلسی وغیرہم کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ ان کو بھی طبقہ عوام ہی میں رکھا جائے گا یا مسند علم تک لائے جانے کی اجازت ہوگی؟