اس باب میں چوں یا چرا۔ تخصیص کرنے والا قطعاً کافر ہے اس لئے کہ وہ اس صریح آیت قرآنی کو جھٹلا رہا ہے، اس آیت قرآنی ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین کی نسبت تو امت محمدیہ کا اجتماع ہوچکا ہے کہ نہ تو اس کے مفہوم ومعنی میں کس طرح کی تاویل جائز ہے اور نہ تخصیص۔‘‘
اسی طرح کی وقیع اور مستند شہادتیں اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں جن سے یہ بات آفتاب نیمروز کی طرح روشن ہوجاتی ہیں کہ صدر اول سے لے کر آج تک امت کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ آنحضرتﷺ اس معنی میں خاتم النّبیین ہیں جو بقول مولوی غلام احمد قادیانی کے ’’آج کل کے عام مسلمان کرتے ہیں۔‘‘
اب رہا مولوی غلام احمد مرزائی کا یہ فرمانا کہ یہ ایک عامیانہ معنی ہیں ’’اہل السنت والجماعت کے کسی ایسے شخص کے بیان کردہ بھی نہیں۔ جو اپنے زمانہ میں مشہور عالم اور اپنے تقویٰ وعلم لدنی میں مرجع انام رہا ہو۔‘‘ سو اس بات کا جواب لکھنے سے پیشتر ہم ان سے اتنا پوچھیں گے کہ اے بندہ خدا، اتنا بڑا جھوٹ لکھ کر خلق خدا میں شائع کرتے آپ کو مطلقی شرم نہ آئی؟ آپ کا جہاد اور آپ کی تبلیغ، یہ سب کچھ جھوٹ اور فریب کی راہ میں ہے؟
مولوی صاحب اپنے اپنی پنداریں شہرت، تقویٰ، علم لدنی اور مرجعیّت کی قید بڑھا کر گویا خلق خدا کی آنکھوں میں خاک جھونک دی۔! لوگو، ذرا ان مولوی صاحب کی دلیری اور بے جگری دیکھنا کیسی جسارت ہے اور کیسی جرأت فرماتے ہیں اور پھر کس انداز سے فرماتے ہیں: ’’قرآن وحدیث میں یہ الفاظ آنحضرتﷺ کی مدح میں وارد ہیں۔‘‘
مولوی صاحب، یہ الفاظ ایک بڑی ہی مہتم بالشان دینی حقیقت کے اعلان کے لئے بولے گئے ہیں، محض مدح وستائش ان سے مقصود نہیں، آپ ان کو مدح کے الفاظ بتا کر ملت بیضاء کو اس عظیم ورثہ سے مسلمانوں کو برگشتہ ومنحرف دیکھنا چاہتے ہیں۔ جس نے آج تک اسے بہت سے جہاں آشوب فتنوں سے بچائے رکھا ہے، جسے اگلی آسمانی کتابوں نے بھی اس شریعت غر اّء کا طغرائے امتیاز بتایا ہے، مگر آپ اس بھلاوے میں نہ رہیں، یہ مسلمان جب تک مسلمان ہے اس پر یہ فریب نہیں چل سکتا۔
کیوں مولوی مرزائی، رسول اﷲﷺ کے جانشین اول حضرت ابو بکر صدیقؓ آپ کے نزدیک کوئی مستند عالم دین ہیں یا نہیں؟ وہ تو خاتم النّبیین کے وہی ’’معنی کرتے ہیں‘‘ جو آج کل