۳… غزوہ تبوک کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے جب علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کو اپنا جانشین بنا کر مدینہ میں چھوڑنا چاہا تو وہ کچھ ملول نظر آئے، اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’علیؓ تم کو یہ بات خوش نہیں آتی کہ تم جانشین موسیٰ، ہارون (علیہما الصلوٰۃ والسلام) کی طرح میرے جانشین بنو؟ (ہاں تم میں اور ہارون میں اتنا فرق ہوگا کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔(رواہ البخاری ومسلم)‘‘
اس حدیث میں یہ بھی بات قابل لحاظ ہے کہ ہارون علیہ السلام کوئی صاحب شریعت اور مستقل نبی نہ تھے۔ ان کی جانشینی موسیٰ علیہ السلام کے ذکر کے بعد آنحضرت کا یہ فرمانا کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، اس بات پر ناقابل قطع دلیل ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد اب کوئی ہارون علیہ السلام ایسا غیر مستقل اور غیر تشریعی نبی بھی نہ آئے گا۔ مسلم کی ایک روایت میں الّا انہ لا نبوۃ بعدی بھی آیا ہے۔ (باب فضائل علیؓ) معنی یہ ہوئے کہ آنحضرتﷺ نے اپنے بعد ہر طرح اور ہر نوع کی نبوت کی نفی فرما دی وہ مستقل ہو یا غیر مستقل، تشریعی ہو یا غیر تشریعی، یا بقول قادیانی صاحبوں کے ظلی وبروزی۔
۴… فرمایا رسول اﷲﷺ نے: ’’لوگو! یقین کرو (اب نبوت سے کو ئی حصہ باقی نہ رہا، سوا خوشخبریوں کے۔ (رواہ البخاری ومسلم) یہی روایت حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بھی آئی ہے۔ وہ فرماتی ہیں فرمایا رسول اﷲﷺ نے کہ نہ باقی رہا آپﷺ کے بعد نبوت سے کوئی جز یا حصہ، سوا خوشخبریوں کے، لوگوں نے پوچھا حضورﷺ یہ خوشخبریاں کیا ہیں۔ تو فرمایا اچھا خواب جو مسلمان دیکھیے یا اسے دکھایا جائے۔ (کنز العمال بروایۃ احمد والخطیب) ‘‘
اس حدیث صحیح نے بھی صاف صاف بتا دیا کہ آنحضرتﷺ وسلم کے بعد نبوت ورسالت کسی شکل وصورت میں باقی نہ رہی، ہاں اس کا چھیالیسواں حصہ (اچھے خواب) ضرورباقی رہا، مگر اس چھیالیسواں حصہ (اچھا خواب) کو نبوت سے کیوں کر تعبیر کیا جاسکتا ہے اس کا باب ہر مسلمان کے لئے کھلا ہوا ہے۔
۵… فرمایا رسول اﷲﷺ نے: ’’یقین کرو کہ رسالت ونبوت منقطع ہوچکی، اب نہ کوئی رسول میرے بعد ہو گا اور نہ کوئی نبی (رواہ الترمذی وقال ہذا حدیث صحیح) یہ حدیث بھی اس بات پر نص قاطع ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبوت خواہ وہ کیسی ہی ہونہ آئے گی۔‘‘
۶… فرمایا رسول اﷲﷺ نے: ’’اے ابو ذرؓ سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام ہیں اور سب کے آخر پچھلے محمدﷺ۔ (رواہ ابن حبّان فی صحیحہ) ‘‘