مانتے آئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سلسلہ رسالت کے حلقہ آخرین ہیں اور ایوان نبوت کی خشت ’’پسیں‘‘ ان پر نبوت اور رسالت ختم ہوگئی اور در رسالت ان کے بعد قیامت تک کے لئے مسدود ہوگیا۔ اب نہ کوئی مستقل اور صاحب شریعت نبی مبعوث ہوگا اور نہ کوئی غیر مستقل یا بقول قادیانی صاحبوں کے ظلی وبروزی نبی، حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اپنی پہلی نبوت کے ساتھ ظاہر ہوں گے۔ مگر پیروی کریں گے شریعت محمدیہ کی۔
مولوی غلام احمد مرزائی کی جسارت داد طلب ہے، فرماتے ہیں خاتم النّبیین کے یہ معنی قطعی نہیں! ہم گزارش کریں گے مولوی صاحب، خوف خدا کرو، خود رسول اﷲﷺ نے خاتم النّبیین کے یہ معنی بتائے ہیں اور اس باب میں جو حدیثیں آنحضرتﷺ حافظ ابن حزم اندلسی اپنی بلند پایہ کتاب (ملل ونحل ص۷۷ ج۱) میں فرماتے ہیں:’’وقدصح عن رسول اﷲﷺ بنقل الکواف الّتی نقلت نبوتہ واعلامہ وکتابہ انہ اخبرانہ لا نبی بعدی …الخ‘‘
’’جس طرح ایک جم غفیر نے آنحضرت کی نبوت کی خبر آنحضرت کے معجزات ودلائل نبوت اور آنحضرت کی لائی ہوئی کتاب (قرآن) ہم تک پہنچائی ہے اسی طرح اتنی ہی بڑی جماعت نے آنحضرت کی یہ حدیث بھی ہم تک پہنچائی ہے کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘
حافظ ابن کثیرؒ ایسا گرامی قدر امام حدیث لکھتا ہے:’’وبذلک وردت الا حادیث المتواترۃ عن رسول اﷲﷺ من حدیث جماعۃ من الصحابۃؓ (تفسیر ابن کثیر ج۸ ص۸۹)‘‘اور ختم نبوت کے اسی معنی کی تائید آنحضرت ﷺ کی احادیث متواترہ سے ہوتی ہے جن کو صحابہ کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔
’’علامۃ العراق سید محمود شکری آلوسی فرماتے ہیں۔ وکونہﷺ خاتم النّبیین مما نطقت بہ الکتاب وصد عت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامۃ‘‘ اور آنحضرت ﷺ کا خاتم النّبیین ہونا، سو اس کی شہادت قرآن نے دی۔ اس کا اعلان احادیث نبویہ نے کیا، اور بالا ٓخر اسی پر امت محمدیہ کا اجماع ہوگیا۔‘‘
اب وہ حدیثین کیا ہیں جن میں خاتم النّبیین کے معنی بیان ہوئے ہیں۔ مولوی غلام احمد صاحب مرزائی اور ان کے ہمنوا تو سنیں اور راست بازی کیساتھ ان کے معافی پر غور کریں۔
۱… فرمایا رسول اﷲﷺ نے: ’’اﷲ کے جو نبی مجھ سے پہلے آئے ان کے ساتھ میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کوئی محل تعمیر کیا ہو اور اس کی خوبی وزیبائی کا بھی خیال رکھا ہو مگر اس کا کوئی ایک گوشہ ایسا ہے جو ایک اینٹ بغیر نا تمام رہ گیا ہو لوگ آکے اس محل کو دیکھتے اور اس کی خوبی پر عش