مولوی غلام احمد مرزائی ہاں کہتے ہیں یا نہ؟مگر اس صاف گوئی پر کیسے اتر آئے؟ ابھی تو مسلمان کو پرچانا ہے۔ دام میں آلیں تو ان سے نبوت مرزا بھی منوائی جائے اور ساری دنیا کے کلمہ گو، آنحضرتﷺ کو خاتم النّبیین جاننے والے اور ان کی حرمت پر جان چھڑکنے والے مسلمانوں کو کافر بھی کہلوایا جائے۔ ابھی تو گھی میں چپڑی باتیں کرنا ہے۔مولوی غلام احمد یہ ایچ ایچ ٹھیک نہیں، سوال شخصیت کا ہے، سوال مرزا غلام احمدقادیانی کا ہے۔ ان کو اپنے دعوئوں میں جھوٹا جاننے والا، مسلمان باقی رہ جاتا ہے یا نہیں؟ سوال باقی ہے، جواب نہیں ہوا۔
جواب سوال نمبر۲
یہاں بھی وہی پیچ وخم، حضرت صاحب صاف صاف فرما دئیے، یوں کہئے کہ مرزا قادیانی کو جو کوئی صرف مجدد یا بزرگ کہے، نبی اور رسول، مسیح اور مہدی نہ پکارے تووہ کافر ہے، اب چاہے عرب وعجم، نہیں سارے جہاں کے مسلمان کافر ہوجائیں۔ جواب یہ ہونا چاہئے تھا مگر ایچ پیچ خمیر بن چکا ہے تو سیدھی باتیں کیسے ہوں، یقین ہے اب کے جواب صاف ملے گا، جواب صاف مل جاتے تو کچھ اور گزارش ہو۔
جواب سوال نمبر۳
مولوی غلام احمد مرزائی کو آنحضرتﷺ کا خاتم النّبیین ہونا تسلیم ہے، مگر وہ معنے جو’’آج کل کے عام مسلمان‘‘ خاتم النّبیین کے کرتے ہیں، وہ ان کے نزدیک غلط ہے۔ وہ نہ قطعی ہیں نہ اجماعی اور نہ کسی مستند عالم کے بتائے ہوئے۔ مولوی غلام احمد صاحب کا یہ فقرہ۔ ’’جو آج کل کے عام مسلمان کرتے ہیں۔‘‘ واہ طلب کرتے ہیں۔ ان کے اور ان کے نبی مرزا قادیانی کے سوا اس عہد کے تمام علمائے اسلام، عوام کی صف میں کھڑے کر دئیے جانے کے قابل ہیں۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ: ’’تو کیا ہے۔‘‘ تمہیں بتائو… یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
جواب میں ہم گزارش کریں گے کہ جناب کا یہ فتویٰ غلط ہے اور سرتا سر غلط کیا خوب ہوتا اگر آپ نے اس ’’مفہوم عوام‘‘ کی تصریح بھی فرما دی ہوتی۔ غالباً مجال سخن باقی رکھنے کا ایک پہلو نکالا گیا ہے، درست ہے۔
’’بات وہ کر کہ نکلتے رہیں پہلو دونوں‘‘
خیر مسلمانوں کا عقیدہ ہم ہی عرض کئے دیتے ہیں، صدر اول سے لیکر آج تک تمام علمائے اہل السنۃ والجماعۃ سرور کائنات روح دو عالم ﷺ کو اس معنے میں خاتم النّبیین جانتے اور