معلوم کریں تو سنئے کہ مرزا قادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء مطابق ۲۴؍ربیع الآخر ۱۳۲۶ ء یوم سہ شنبہ کو ہیضہ کی بیماری میں لاہور میں مر گئے۔ فقطع دابر القوم الذین ظلموا الحمد ﷲ رب العالمین لکھا تھا کاذب مرے گا پیشتر، کذب میں سچا تھا پہلے مر گیا۔
اشتہار مذکور پر انعامی مباحثہ
قدرت الٰہیہ سے جب حق وباطل کا فیصلہ ہوگیا تو قادیانیوں نے، ہاں! ان لوگوں نے جو مرزا قادیانی کو ملہم اور مامور من اﷲ کہتے تھے یہ راگ الاپنا شروع کیا کہ ’’مرزا قادیانی نے اشتہار مذکور بحکم الٰہی نہیں لکھا نہ اس کی قبولیت کا منجانب اﷲ کوئی وعدہ تھا۔‘‘ حتیٰ کہ مرزائیوں نے اس پر مباحثہ کا چیلنج بھی دے دیا۔ مولانا ثناء اﷲ صاحب نے اس چیلنج کو قبول کرلیا اور لدھیانہ میں مباحثہ قرار پاگیا۔ یہ وہی لدھیانہ تھا جس کی بابت مرزا قادیانی نے فرمایا تھا کہ: ’’حدیث میں باب لد پر دجال کا مقتول ہونا جو مذکور ہے اس لد سے مراد لدھیانہ ہے۔ ‘‘
(حاشیہ الہدیٰ ص۹۱، خزائن ج۱۸ ص۳۴۱)
دیکھو اس لدھیانہ میں دجال حال کیسا قتل ہوا کہ دلائل مرزائیہ کی گردن توڑ دی گئی اور مبلغ تین سو روپیہ تاوان کے طور پر بھر گئے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ مباحثہ کی شرطیں طے ہوئیں آخری شرط یہ تھی کہ اگر فیصلہ مدعی کے حق میں ہو تو مدعا علیہ مدعی کو تین سو روپیہ کی رقم بطور تاوان یا انعام کے دے گا۔ چنانچہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۱۲ء کو مباحثہ شروع ہوا۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۱۲ء کو بوقت شام سردار بچن سنگھ صاحب گورنمنٹ پلیڈر نے جو مسلم الطرفین ثالث تھے اپنا فیصلہ سنا دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’’مرزا قادیانی کا اشتہار مذکور بحکم خداوندی تھا اور خدا نے یہ دعا قبول فرمالی۔‘‘
مرزائیوں کو حسب اقرار طوعاً او کرہاً مبلغ تین سو ورپیہ کی رقم بھرنی پڑی اور مولانا ثناء اﷲ صاحب فاتح ومنصور، سالم وغانم ہوکر خوش خوش واپس ہوئے اور ہندوستان کے مسلمانوں نے آپ کو فاتح قادیان کا لقب دیا (اس مناظرہ کی تفصیل رسالہ فاتح قادیان میں پڑھو)
(نوٹ: یہ رسالہ ’’فاتح قادیان‘‘ احتساب قادیانیت کی جلد۸ صفحہ۱۹۹سے۲۶۶ پر شائع ہوچکا ہے۔ فلحمدﷲ! مرتب)