قابل غور
مسلمانو! ذرا سوچئے جبکہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے حق وباطل کا فیصلہ کردیا۔ پھر مسلمانوں اور مرزائیوں کے مسلم ثالث نے بھی فریقین کی بحثوں کو سن کر فیصلہ کردیا۔ تو اب کونسا حیلہ باقی رہ گیا؟ کونسی حجت باقی رہ گئی کہ اشتہار مذکورہ کو فیصلہ کن قرار نہ دیا جائے؟ لیکن بقول:
مرزائی آں باشد کہ چپ نشود
قادیانی اور لاہوری دونوں پارٹیاں اب تک یہی راگ الاپ رہی ہیں کہ دعائے مذکوربحکم الٰہی نہ تھی اور طرح طرح کے عذر اور بہانے کرتے ہیں اور اپنی زبان سے مولانا امرتسری فاتح قادیان کی شان والا شان میں کلمات ناشائستہ نکالتے ہیں۔ سچ فرمایا ہمارے پیغمبر محمدﷺ نے اذا لم تستحیی فاصنع ماشئت۔ یعنی جب شرم اٹھ گئی تو جو دل چاہے کرو۔
لاہوری ٹریکٹ
قادیانی تو مرغے کی ایک ٹانگ کی صدا لگا ہی رہے تھے۔ لاہوری پیغامی بھی ان کے ہم نوا ہوگئے اور ایک چوورقہ شائع کردیا جس میں بڑا زور اس امر پر دیا گیا ہے کہ ۱۵؍اپریل والا اشتہار ایک دعائے مباہلہ تھا( ص۸، مجموعہ اشتہارات ص۵۷۹، ج۳ ملخص) (اس مباہلہ کی حقیقت آگے چل کر ظاہر ہوگی۔) بنارس کی انجمن مرزائیہ نے بھی اس لاہوری چو ورقہ کو شہر میں تقسیم کیا ہے۔ اس لمبی چوڑی تحریر (جو آٹھ صفحوں میں ختم ہوئی ہے۔) کی جان یا خلاصہ ہم اپنے لفظوں میں نہیں بتاتے بلکہ ٹریکٹ مذکورہ سے نقل کرتے ہیں جو یہ ہے: ’’مندرجہ بالا تحریر سے ثابت ہے کہ اشتہار۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء ایک دعائے مباہلہ تھا۔‘‘ (ص۸) اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کردیا۔ اب ہمارا فرض تو اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ ہم بدلائل یہ ثابت کردیں کہ دعائے مرزا دعاء مباہلہ نہ تھی۔ لیکن ہم اتنا ہی نہ کریں گے بلکہ ان تمام عذرات کی بدلائل ساطعہ تردید کریں گے۔ جنہیں عام طور سے مرزائیوں کی کل پارٹیاں پیش کرتی ہیں تاکہ عام مسلمانوں کو آفتاب نیمروز کی طرح واضح ہوجائے کہ مرزا قادیانی کی دعا منجانب اﷲ تھی جو قبول ہوئی اور حق وباطل کا فیصلہ ہوگیا اور مرزائیوں کے اعذار یکسر غلط اور باطل ہیں۔ بعون اﷲ وصونہ وتوفیقہ وتوقیقہ