ومخالفین سب جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی کا یہ بیان محض دروغ بے فروغ ہے۔ صداقت کا اس میں کہیں اتہ پتہ بھی نہیں ہے۔ مولانا امرتسری تو کسی مسجد کے امام بھی نہیں ہیں۔ ان کا گزارہ ان کی وسیع تجارت، اور مختلف مکانوں کے کرایہ کی آمدنی پر ہے۔ نہ مردوں کے کفن یا وعظ کے پیسوں پر۔ اس ایک بات سے ہی مرزا قادیانی کی صداقت آشکارا ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ خود ہی (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱) پر لکھ گئے ہیں۔
’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹاثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں پر بھی اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ نیز (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹) میں لکھتے ہیں: ’’جھوٹ بولنے سے بدتر دنیا میں اور کو ئی برا کام نہیں۔‘‘
ایک اور سبب
مولانا ثناء اﷲ صاحب سے مخالفت عظیم کا ایک اور بھی سبب ہے۔ وہ یہ ہے کہ مولانا صاحب نے مرزا قادیانی کی ایک پیشین گوئی اپنے عمل سے جھوٹی کردی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے اسے رسالہ (اعجاز احمدی ص۱۱، خزائن ج۱۹ ص۱۱۷،۱۱۸)میں لکھا تھا: ’’اگر یہ (مولانا ثناء اﷲ) سچے ہیں تو قادیان میں آکر کسی پیشین گوئی کو جھوٹی ثابت کریں۔ ‘‘ واضح رہے کہ مولوی ثناء اﷲ ، قادیان میں تمام پیشین گوئیوںکی پڑتال کے لئے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۷، خزائن ج۱۹ ص۱۴۸)
مولانا ثناء اﷲ صاحب نے مرزا قادیانی کی اس پیشین گوئی کو یوں جھوٹا ثابت کردیا کہ آپ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان جا دھمکے اور مرزا قادیانی کو للکارا کہ لو میں آگیا ہوں!
میں مجمع میں تمہاری تمام پیشین گوئیوں کی حقیقت ظاہر کروں گا مجھے وقت اور اجازت دو ۔ (ناظرین مولانا امرتسری کے پورے خط کو مولانا ممدوح کی کتاب ’’تاریخ مرزا‘‘ کے ص۵۵ پر ملاحظہ فرمائیں)
(’’تاریخ مرزا‘‘ نامی مولانا ثناء اﷲ امرتسری کی کتاب احتساب قادیانیت جلد۸ ص۴۹۳تا۵۴۲ پر شائع ہو چکی ہے۔ فلحمدﷲ! مرتب)