مرزا قادیانی نے جواب میں ایک طویل خط لکھا کہ ’’میں خدا تعالیٰ سے قطعی عہد کرچکا ہوں کہ لوگوں سے مباحثات ہرگز نہ کروں گا۱؎ ۔ آپ زبانی بولنے کے مجاز نہ ہوں گے۔ صرف ایک سطر یا دو سطر تحریر کر دیں گے۔ آپ اس کو سنا نہ سکیں گے ہم خود پڑھ لیں گے۔ تین گھنٹہ تک میں جواب دوں گا، وغیرہ۔ مولانا امر تسری نے جواب دیا کہ آپ کی شرطیں منظور۔ مگر میں اپنی دو تین سطریں کھڑا ہوکر مجمع میں سنائوں گااور ہر گھنٹہ پر ۵منٹ تک آپ کے جواب کی نسبت اپنی رائے کا اظہار کروں گا۔ اس کا جواب مرزا قادیانی نے مولوی محمد احسن امروہی کے قلم سے لکھوا کر یہ بھیجوا دیا کہ آپ مناظرہ چاہتے ہیں اور مرزا قادیانی خدا سے عہد کرچکے ہیں کہ وہ مناظرہ نہ کریں گے…الخ۔ اب کیا تھا۔
آغا کو دیکھ کر ساری فارسی بھول گئی۔
بس ہو چکی نماز مصلّے اٹھائیے
مولانا امر تسری یہ مصرع پڑھنے ہوئے قادیان سے واپس چلے آئے۔
ہمہ شوق آمدہ بودم ہمہ حرماں رفتم
مرزاقادیانی نے مولانا ثناء اﷲ کے قادیان پہنچنے کا اقرار (مواہب الرحمن کے ص۱۰۹، خزائن ج۱۹ ص۳۲۹) پر کیا ہے لکھتے ہیں: ما کتبنا الی ثناء اﷲ امر تسری اذ جاء قادیان وکان ہذا عاشر شوال…الخ یعنی مولانا ثناء اﷲ صاحب دسویں شوال کو قادیان آئے تھے۔ مرزا قادیانی کی جب ایسی ذلتیں ہوئیں تو آخر کو یہ دعا شائع کردی۔
مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ یتسنبئونک احق ہو قل ای وربی انہ لحق
بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب السلام علی من اتبع الہدی مدت سے آپ کے پرچہ
۱؎ کتاب انجام آتھم کے آخری صفحہ پر جو لکھا ہے عزمنا ان لا نخاطب العلماء …الخ اسی کی طرف اشارہ ہے۔