اس سے بھی حیات مسیح ثابت ہے۔ معالم التنزل میں امام بغوی نے لکھا ہے کہ چار شخص انبیاء میں سے زندہ ہیں۔
زمین پر خضر اور الیاس اور آسمان پر ادریس اور عیسیٰ اس سے بھی حیات مسیح ثابت ہے۔ (مظاہر حق ج۴ ص۳۸۷) صاحبان قرآن اور حدیث کے بعد بزرگان دین کا مذہب لکھا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے۔ وہی اصالتاً نازل ہوں گے۔ اور فوت ہوں گے۔
۱… ’’حضرت عمرؓ جب آنحضرتﷺ جماعت صحابہ کے ساتھ ابن صیاد کو دیکھنے گئے اور اس میں کچھ علامتیں دجال کی پائی گئیں۔ تو حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی کہ میں ابن صیاد کو جو دجال ہے۔ ابھی قتل کر دوں۔ تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ دجال کا قاتل عیسیٰ ابن مریم ہے۔ تو دجال کا قاتل نہیں۔‘‘ (دیکھو کنزالعمال ج۷ ص۲۰۲ ومشکوٰۃ) اس حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ حیات مسیح کے قائل تھے۔ ورنہ عرض کرتے۔ یا رسول اﷲ مسیح تو مرچکا ہے۔ وہ دجال کو کس طرح قتل کرسکے گا۔ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی کا تسلیم کرلینا کہ عیسیٰ علیہ السلام دجال کو قتل کرے گا حیات مسیح کی پختہ دلیل ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حیات مسیح کا عقیدہ شرک نہیں۔ اگر شرک ہوتا تو اس زمانہ میں حضرت رسول اﷲﷺ پر وحی آتی تھی۔ اس وقت اس عقیدہ کی تردید ہوجاتی۔
۲… حضرت عائشہؓ کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی فوت نہیں ہوئے۔ بعد نزول فوت ہوں گے۔ (فتح الباری ج۱۳ ص۲۱۱) پر ہے۔ اخرج ابن جریر عن الحسن وان من اہل الکتاب لیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ واﷲ انہ حی الآن عند اﷲ اس سے بھی حیات مسیح ثابت ہے۔
۳… ’’اخرج ابن جریر وابن ابی حاتم عن الربیع ان ربنا لا یموت وان عیسیٰ یاتی علیہ الفنائ‘‘ (تفسیر طبری ج۳ ص۱۶۳)
یعنی نبیﷺ کے پاس نصاریٰ آئے اور اثناء گفتگو میں رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ہمارا رب زندہ ہے اور اس پر کبھی فناہ نہیں آئے گی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر فناہ آئے گی۔