عنصری ثابت ہوا۔ اور یہ کفر ہے۔
عقیدہ نمبر۲ بھی درست نہیں میں حیات مسیح پہلے قرآن سے پھر حدیث سے پھر اجتماع امت سے اور بالآخر مرزا قادیانی کی اپنی تحریر سے ثابت کرتا ہوں۔ آپ صاحبان غور سے سنیں خدا تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کی تردید کرکے فرماتا ہے۔ (وما قتلوہ یقینا) اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے استدراک کا لفظ استعمال کرکے فرمایا۔ بل رفعہ اﷲ الیہ یعنی الہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ یہ صریح دلیل ہے۔حیات مسیح پر کیونکہ ایک بات کے ثابت کرنے کے دو ہی قاعدے ہیں۔ ایک تو براہ راست الفاظ میں جیسا کہ کہا جاتا کہ زیدعالم ہے۔ یا زید کاتب ہے یا زید زندہ ہے دوسرا طریقہ اثبات کا یہ ہے کہ اس کے مقابل جو اس کی ضد ہے اس کی نفی کی جائے۔ اس سے بھی اثبات ثابت ہوتا ہے ۔ جیسا کہ کہا جائے کہ زید جاہل ان پڑھ نہیں اس سے صاف ثابت ہوگا کہ زید جب جاہل نہیں تو عالم ہے۔
ایسا ہی جب کہا جائے گا کہ زید مردہ نہیں تو ثابت ہوگا کہ زید زندہ ہے۔ اب قرآن کی آیت مذکور کی طرف رجوع کرو کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقیناٰ نہیں مرا یعنی فوت نہیں ہوا جب فوت نہیں ہوا تو زندہ ہے ایک حدیث بھی پیش کرتا ہوں جس کو مرزا قادیانی بھی مانتے ہیں کہ جس نے صاف لکھا ہے کہ مسیح تا نزول زندہ ہے۔ ’’عن عبداﷲ ابن عمر قال قال رسول اﷲﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا وعیسیٰ ابن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر وعمر‘‘ (رواہ ابن الجوزی فی کتاب الوفا مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ) روایت ہے عبداللہ بن عمر سے کہا کہ فرمایا: رسول خداﷺ نے کہ اتریں گے عیسیٰ بیٹے مریم کے طرف زمین کی پس نکاح کریں گے اور پیدا کی جائے گی ان کی اولاد اور ٹھہریں گے زمین میں پینتالیس۴۵ برس پھر مریں گے۔ عیسیٰ بیٹے مریم کے پس دفن کئے جائیں گے۔ نزدیک میرے بیچ مقبرہ میرے کے پس اٹھوں گا میں اور عیسیٰ ایک مقبرہ میں سے درمیان ابی بکر اور عمر کے جو اس مقبرہ میں مدفون ہیں۔ (مظاہر حق ج۱ ص۳۸۶) اس حدیث کے الفاظ ثم یموت سے بھی ظاہر ہے کہ زمین پر اتر کر بعد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوں گے۔