ایک خادم پیر اں دتا بیمار ہوا جو رات کو باہر کردیا گیا اور مرگیا۔ ادھر خیال کریں کہ احقر معہ تمام متعلقین خود اس مرض سے خداوندعالم نے محفوظ ومصون رکھا بلکہ جتنے اس احقر کے مرید تھے وہ بھی معہ متعلقین خود اس مرض سے مامون رہے۔ اس احقر کے دو مکان ہیں۔ پلیگ کے موقع پر ہم جس مکان میں ہوتے تھے اس مکان کے ہمسائیگان میں بھی پلیگ سے امن رہا۔ حالانکہ جب ہم جس مکان میں نہیں ہوتے تھے تو اس مکان کے ہمسائیگان اکثر مرض پلیگ سے ہلاک ہوئے۔ ذالک من فضل اﷲ علی وعلی من ابتغ واﷲ ذوالفضل العظیم وما توینقی الا باﷲ وعلیہ توکل والیہ انیب
ناظرین! برائے خدا ذرا انصاف کو مد نظر رکھ کر خیال فرماویں کہ مرزا کا یہ قول کہ میرے مباہلہ سے فلاں مرا فلاں ہلاک ہوا اور یہ کہ جتنے لوگ مباہلہ کرنے والے ہمارے سامنے آئے خدا تعالیٰ نے ان سب کو ہلاک کردیا۔ کہاں تک سچا ہے کیا مرزا قادیانی لعنت اﷲ علی الکاذبین کے ٹھیک ٹھیک مصداق ہیں یا نہیں؟مگر یابے شرمی تیرا آسراء ۔ اگرچہ یہ اصرار اور واردات قابل اظہار نہیں تھے اور جو ذوق لذت ان کے اخفاء میں حاصل تھا ان کے اظہار میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔
نظامی ایں چہ اسرا راست کز خاطر بروں دادی
کسے سرکش نمے داند زبان درکش زبان درکش
مگر چونکہ اس کے اظہار میں اعلاء کلمت اﷲ ہے جو جہاد اکبر کا حکم رکھتا ہے۔ بحکم الضرورات تسبیح مخطورات ان کو ظاہر کرکے اس لذت وذوق کو قربان اور نثار کیا گیا۔
گز نثار قدم یار گرامی نکنم
گو ہر جان بہ چہ کا ردگرم باز آید
ہذا آخر ما اردنا ایراد کافی ہذہ الرسالۃ والحمد ﷲ تعالیٰ اولا وآخراً وظاہراً وباطناً وعلیٰ لکل حال واعوذ باﷲ من حال اہل النار۔ وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ واصحابہ ومن تبعہم باحسان اجمعین الی یوم الدین تمت
التماس مؤلف
حضرات ناظرین کی خدمات عالیہ میں یہ ہے کہ اہل عقل ودانش حال کو قال سے معلوم