ہے۔ مگر یہاں مرزا کا جواب اور اظہار واقعہ منظور ہے۔ پس مرزا کا دعویٰ تھا کہ پلیگ میرے اعداء کے لئے آئی ہے میرے مرید اس سے محفوظ رہیں گے۔ سو خداوند عالم نے ہر پلیگ میں لاتعداد لا تحصیٰ مرزائیوں کو ہر جگہ حتیٰ کہ قادیان دار الزیان میں بھی جہنم رسید کیا۔ اور مرزائی پارٹی کے بڑے بڑے رکن اس نہنگ طاعون کے لقمہ ہوئے۔ جن کا ذکر اکثر ہوچکا ہے۔ مولوی محمد یوسف سنوری جو مرزائی امت میں عہدہ فاروقی کے مدعی تھے جن کی نظم سرمہ چشم آریہ کے آخر میں تحریر ہے۔ اسی بلا کی نذر ہوئے۔ اس طرح اب کے سال ان کا لڑکا طاعون سے مرا اور میاں جی نظام الدین خان پوری معہ اپنی زوجہ کے اسی پلیگ سے آنجہانی ہوئے۔ اسی طرح عزیز عبدالحق پٹواری چونگ علاقہ کوٹلہ جو ظالمان مرزائیان کے پھندے میں پھنس کر مرزا کے مرید ہوگئے یا مرزا کی جانب حسن ظن رکھنے لگ گئے تھے۔ ایک خاص ان کے خط سے معلوم ہوا کہ ان کا صاحبزادہ اسی مرض پلیگ سے جو محض مرزا قادیانی کے طفیل آئی ہے۔ راہی ملک بقا ہوا۔ ان کے خط سے جو رنج والم ظاہر ہوتا تھا وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ اچھا منحوس ہے کہ جو اپنے مریدین کی بربادی اور تباہی کے لئے طاعون جیسی بلا کو ہمر اہ لایا۔ اس وقت جو قلق منشی صاحب کو ہورہا ہے۔۔ ان سے ہی دریافت ہوسکتا ہے۔ ہم اس غم ورنج میں اپنے عزیز منشی صاحب کے ساتھ شریک ہیں اور مرزا پر لعنت بھیجتے ہیں کہ جس منحوس بدبخت کے طفیل ہمارے عزیز کو یہ مصیبت دیکھنی نصیب ہوئی ۔
از من واز جملہ جہاں ایں دعا مقبول باد
اسی طرح ہمارے پڑوسی ظالمان مرزائیان کے ہاتھ پر چڑھ کر مرزا کو مرزا کی بیعت کا یا وعدہ بیعت کا یا حسن ظن رکھنے کا خط لکھ بیٹھے پھر کیا تھا۔
در آنجا کہ باشد قدوم شریف
نباشد ربیع ونا باشد خریف
آپ کی سبز قدمی نے اپنا اثر دکھلایا اور بے چارے غریب نے جو لڑکا آرزو اور تمنا کے ساتھ حاصل کیا تھا۔ پہلے اس پر ہاتھ صاف کیا اور وہ غریب جیسے تھے ویسے رہ گئے۔ خبر نہیں کہ مرزا کو اپنے احباب پر ہاتھ صاف کرنے میں کیا مزہ ملتا ہے۔ شاید آزمائش کرتے ہوں گے کہ ثابت قدم بھی رہتے ہیں یا نہیں۔ لعنت اﷲ ایسے نبی پر اور جلد اٹھائے خدا ایسے رسول کاذب کو کہ جو اپنی امت کے لئے بجائے رحمت کے زحمت ہو کر دکھائی دے بلکہ خاص چار دیواری مرزا قادیانی میں