مولانا مولوی ابوالمنظور محمد عبدالحق صاحب کوٹلوی السر ہندی متولی مسجد جامع کو جو بڑے متبحر عالم وفاضل ہیں اور جن کا فیضان علم سرہند اور ریاست پٹیالہ میں ہی محدود نہیں بلکہ کل اقطار واطراف میں آپ کے فتویٰ بڑی قبولیت کی نظر سے دیکھئے جاتے ہیں اور جن کی بابت تجربہ نے ثابت کردیا کہ سوائے قرآن وحدیث آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے اور قرآن وحدیث کے عامل ہیں، فتویٰ حاصل کیا جا کر مشتہر کیا گیا ہے۔ یہ ہمارے پر میاں جی تصویر علی کا کہ جن کو عوام میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور جن کو مولوی صاحب سے بوجہ تردید بدعت وشرک خاص مخالفت ہے اور اس کے شاگرد رفیع الدین جمعدار بانی استفتاء کا سراسر افتراء اور بہتان اور جعل ہے۔ اکثر ہمارے میں سے وہ ہیں جو ہمیشہ عیدین مولوی صاحب مذکور کے پیچھے پڑھتے تھے مگر اب کی دفعہ بوجہ ان کے دوسری عید گاہ میں تشریف لے جانے کے ان کے پیچھے نماز عید الفطر پڑھنے اور وعظ قرآن وحدیث سننے سے محروم رہے۔ اور بعض وہ ہیں کہ آگے بھی مولوی صاحب کے پیچھے عید کم پڑھی ہوگی اور اب کے بھی ان کے پیچھے نہیں پڑھی اور بعض وہ ہیں کہ جو خود مولوی صاحب کو باوجود ان کے انکار کرنے کے اصرار کرکے اور تکلیف دے کر لائے اور خوشی بخوشی ان کے پیچھے عید پڑھی اور کوئی شبہ وتردد ہم کو نہیں ہوا کیونکہ بعد ادائے عید بڑی منت سے مولوی صاحب سے اپنی مسجد میں جمعہ پڑھوایا اور نذر دی۔ مگر افسوس کہ ان مفسدوں نے اپنی طرف سے آگ فساد بھڑکانے اور اہل اسلام میں شکر رنجی پیدا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ہاں خداوند عالم نے ان کے مولانا کو اس ایذاء پہنچانے کا ترت بدلہ دیا۔ یعنی رفیع الدین جمع دار کا فتویٰ شائع کرنے سے لڑکا اور بیوی مر کر خانہ خراب ہوا اور میاں جی تصویر علی ایک مجلس سے اس ذلت اور تحقیر کے ساتھ بھاگا کہ جس سے بالا ممکن نہیں۔ والسلام علی من التبع الہدی الغرض حدیث میں فرمایا من عادلی ولیا فقد اذ نتہ بالحرب
اسی طرح بہت سی مستورات کو جن کو اسقاط کی بیماری تھی یا جن کی اولاد زندہ نہیں رہتی تھی۔ جن میں ایک صاحب مرزائی بھی ہیں کچھ پڑھ کر دیا۔ الحمد اﷲ اکثر کی اولاد صحیح وسالم پیدا ہوکر زندہ ہیں۔ ادھر مرزائی دعوت کا حال روز روشن کی طرح ظاہر ہے۔ اظہار کی حاجت نہیں۔
اب آخر میں مرزا کے خاص دعوے پلیگ کے متعلق کچھ تحریر کرنا ضروری ہے۔ اگر چہ مرنا اور جینا ایک ایسا امر ہے کہ اس میں بحث عبث ہے اور جو مومن باﷲ طاعون سے مرے وہ شہید