بعینہ یہی نتیجہ محاکمہ آرہ کا ہے کہ جو گویا تمام علماء اہلحدیث ہند کی طرف سے ہے (یعنی نتیجہ المحاکمہ) تفسیر القرآن بکلام الرحمن کے مقامات مذکورہ بلاشبہ ایسے ہیں کہ فرق ضالہ کے خیالات کو تائید پہنچا سکتے ہیں اور اہل سنت اہلحدیث کے مخالف اس سے خوش ہوں اور عند المقابلہ اس تفسیر سے تمسک کریں یہ تو مولوی ثناء اللہ صاحب کا گویا اقرار ہی ہے کہ محدثانہ روش پر یہ تفسیر نہیں ہے۔ (فاعتبرو یا اولی الابصار والجزء الثانی للمحاکمۃ) باقی رہا یہ امر کہ تفسیر لکھنے کے سبب سے مولوی ثناء اللہ صاحب اہلحدیث سے خارج ہوگئے نہیں اولاً ہم اس کو اوپر لکھ آئے ہیں یعنی خارج نہیں ہے اور یہی مطلب مضمون آئندہ کا ہے۔ غرض اس نتیجہ کا اظہار عرصہ پہلے ہوچکا تھا اگرچہ یہاں ۔
زمستی ہاچو غلطیدم بہر سو
حریفاں مستی از من وام کرد ند
کہنا موزوں نہیں مگر بہ نیت اظہار حقیقت وشکر اﷲ کہ ؎
باوردارد ایں حرف از فقیر خاکسار من
کہ ظل عالم اقدس است انکار وقبول
اور لکھنا مناسب نہ ہوگا۔ادھر مقابلتاً مرزا قادیانی کو دیکھو کہ ان کی بکواس کیسے گوزشتر ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنا کشف ظاہر کیا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب والٰہی بخش مرحوم اور ایک اور صاحب آخر ان کے معتقد ہوں گے۔ مگر تاحال مولوی محمد حسین صاحب سلمہ بہ عقیدہ سابقہ پر قائم ہیں اور الٰہی بخش مرحوم اس راہ مستقیم پر مرزا کو فرعون کہتے ہوئے اور بذریعہ عصائے موسیٰ (دیکھو مسیح الدجال) غرق بحرخسراں کرتے ہوئے رونق بخش خلد بریں ہوئے۔ اسی طرح (حقیقت الوحی ص۲۱۸، خزائن ج۲۲ ص۲۲۸) پر اکتالیسواں نشان یہ لکھا ہے کہ: ’’عرصہ بیس یا اکیس برس کا گزرا ہے کہ میں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں چار لڑکے دوں گا جو عمر پائیں گے۔ اسی پیشین گوئی کی طرف (مواہب الرحمن صفحہ ۱۳۹، خزائن ج۱۹ ص۳۶۰) میں اشارہ ہے یعنی اس عبارت میں الحمد اﷲ لذی وہب لی علی الکبر اربعۃ من البنین وانجز وعدہ من الاحسان۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو حمدوثناء جس نے پیرانہ سالی میں مجھ کو چار لڑکے دئیے اور اپنا وعدہ پورا کیا (جو میں چار لڑکے دوں گا) چنانچہ وہ چار لڑکے یہ