دوم… مولوی ابوا لوفاء ثناء اﷲ صاحب وجرگہ غزنویاں میں جو مناقشہ دینی تھا اس میں جو فتویٰ احقر نے دیا تھا اور جو اخبار شحنہ ہند مطبوعہ ۱۶؍دسمبر۱۹۰۴ء میں طبع ہوچکا ہے۔ یعنی جواب سوال مندرجہ صفحہ ۱۰۸ الکلام المبین فی جواب الاربعین قبل اس کے کہ سوال کا جواب دیا جائے۔ یہ امر ظاہر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے بوجہ التزام تفسیر القرآن بکلام الرحمن آیات کی تفسیر آیات سے اجتہادی طور پر کی اور اختصاراً نہ کہ انکاراً بعض اقوال علماء واحادیث کو نظر انداز کرگئے۔ طرفہ یہ کہ بعض جگہ عبارت ذو معنے لکھی گئی اور بعض جگہ بعض علماء معتزلہ کے اقوال سے توارد اور توافق واقع ہوا جس سے علماء کوشبہ ہوا کہ مولوی صاحب اقوال علماء اہل سنت واحادیث نبوی سے روگرداں ہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے بطور پرائیویٹ پہلے فیصلہ کرنے کی درخواست نہ کی تاکہ طول نہ کھنچتا اور در اصل مولوی عبدالحق کو علم غیب تو تھاہی نہیں کہ فتویٰ طلب نہ کرتے۔ الجواب واضح ہو کہ میری رائے میں وہ غلطی جو تفسیر اور الکلام المبین میں مولوی صاحب سے واقع ہوئی۔ محض بمنزلہ اجتہادی غلطی کے ہے۔ پس مولوی صاحب بوجہ پابندی اصول اہل سنت واقرار اتباع کتاب السنت فرقہ اہلحدیث سنت واہل حدیث سے اس ناچیز کے خیال ناقص میں خارج نہیں ہے اور مولوی صاحب کی لغزشیں ایسی ہیں جیسے مشاہیر علماء دین متقدمین کے بعض مسائل میں امید کرتا ہوں کہ مولوی صاحب ان لغزشوں سے معہ ان لغزشوں کے جو ان سے الکلام المبین فی الجواب الاربعین میں بھی سرزد ہوئی ہیں۔ بہت جلد رجوع فرماکر مفتیان علماء اہلحدیث کی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ بہر کیف علماء اہلحدیث مولوی صاحب کے عذرات کی جانب خیال وغور سے توجہ فرما کر مولوی صاحب کو اہلحدیث سے خارج فرمانے کو منسوخ فرما دیں اگر بقول مولوی محمد حسین صاحب خدا نہ کرے کوئی ایسا دن آجائے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب بھی مثل مرزا وچکڑالوی احادیث نبوی سے انکار کریں تو اس وقت ان کے پیش کش یہی خلعت (اہلحدیث سے خارج) کردیں۔ کیونکہ ظاہر پر حکم کرنا مسئلہ مسلمہ ہے۔ والسلام علیٰ من التبع الہدای۔
الراقم فقیر ابو المنظور محمد عبدالحق از سرہند مورخہ ۲؍ستمبر۱۹۰۴ء
ایک نقل اس کی بخدمت منیجر اخبار اہلحدیث کو بھی ارسال ہوئی۔ (عبدالحق)