اب ہم پہلی رات کے چاند کو قمر کہنا حسب اقوال ثقات قرآن کریم سے ثابت کرتے ہیں۔ تفسیر والشمس وضحہا والقمر اذا تلہا کی تفسیر عمدۃ المفسرین قتادہ نے قمر بمعنے ہلال کی ہے۔ اور یہ وہ تفسیر ہے کہ جو بحکم خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم الحدیث، بلاغت اور فصاحت میں سب سے احسن اور مقبول ہے۔ لو صاحب اب تو آپ کو اپنی بے بضاعتی اور قلت علم کا اقرار ہوا اور تمہاری کبرو تعلّی کا غرہ ٹوٹا۔ بیت !
عجب نادان ہیں جن کو بے عجب تاج سلطانی
فلک بال ہما کوپل میں سونپے ہے گمن رانی
اب میں اصل مقصد کی طرف توجہ کرتا ہوں کہ مرزا نے بزعم فاسد خود دنیا پر یہ ظاہر کرنا اور سکہ بٹھانا چاہا ہے کہ جو مرزا کے مخالف تھے اور جنہوں نے مباہلہ کیا تھا وہ سب مر گئے۔ چنانچہ لکھا ہے (تتمہ حقیقت الوحی ص۵۱، خزائن ج۲۲ ص۴۸۵) پر کہ اکثر مباہلہ کرنے والے طاعون سے مرے اور دیگر جا بجا مقامات پر بہت سے اشخاص کا مباہلہ کے اثر سے مرنے کا ذکر کیا ہے۔۔ مگر بحکم دروغ گو را حافظ نباشد (حقیقت الوحی ص۳۰۰، خزائن ج۲۲ ص۳۱۳) پر لکھتا ہے: ’’پھر اگرچہ تمام مخالف مولوی مردمیدان بن کر مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوئے مگر پس پشت گالیاں دیتے رہے اور اسی صفحہ پر لکھتا ہے ’’حالانکہ انہوں نے ابھی مسنون طور پر مباہلہ نہیں کیا تھا۔‘‘ مگر قادیانی میں کہتا ہوں کہ جتنے مولویوں کا ذکر آپ نے کیا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کا بھی یہ مضمون دکھلا دیں کہ جھوٹے سچے کی علامت جھوٹے کا سچے کے پیشتر مرنا ہے اور یہ بات آپ سے مقرر کی ہے تو آپ کی خدمت میں مبلغ ۵۰ بطور نذرانہ پیش کروں گا۔ یہ عجیب شان ایزدی ہے کہ جتنے بزرگواروں کے نام مرزا قادیانی تحریر کرتے ہیں۔ کسی نے بھی اس قسم کا ارادہ نہیں کیا اور خداوند عالم الغیب نے کسی کے دل کو اس طرف متوجہ ہونے نہیں دیا۔ چنانچہ مرزا قادیانی کو بھی اسکا اقرار ہے۔ کما تقدم تاکہ مرزا قادیانی کو اس میں حجت نہ باقی رہے ہاں جنہوں نے مباہلہ کا اظہار کیا اور جن کے دل اس طرف متوجہ ہوئے وہ اب تک زندہ ہیں۔ قبل اس کے کہ ہم مرزا قادیانی کے اس دعوے کی تکذیب نشان آسمانی فیصلہ حقانی سے کریں اور مرزا اور مرزائیوں کو زندہ درگور بنا دیں اور ان کے بھرے ہوئے بیڑے کذب وفریب کو طوفان غضب الٰہی سے مثل بیڑہ بالٹک روسی کے تحت الثریٰ کو پہنچا دیں۔ اور ان کے قلعہ مکروکید کو مثل قلعہ پورٹ آتھر کے حقانی گولوں سے اڑا دیں اور