تعلق احکام شرعیہ نشان اول ودوم کی بھی تردید ضروری معلوم ہوئی۔ وعلی اﷲ یتوکل المؤمنون۔
’’نشان اوّل… کہ میں بموجب حکم شارع ہر صدی پر مجدد ہوتا ہے۔ مجدد ہوں ورنہ بتلایا جائے کہ اس زمانہ میں اور کون مجدد ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۹۳، خزائن ج۲۲ ص۲۰۰)
الجواب… اس مہوس مبتدع زندیق کو یہ معلوم نہیں کہ کبھی ڈاکو اور جعلساز بھی شاہی محافظ قرار دئے جاسکتے ہیں۔؟ دیکھو بحکم حدیث لا تزال طائفۃ من امتی (الحدیث) جو اس حدیث کی مفسر ہے جماعت علماء کو اہل علم نے مجدد کہا ہے۔ اگر ثبوت مانگو تو انشاء اللہ موجود پائو گے۔ بس وہ جماعت اہل علم کی جس نے تمہاری بیخ کنی کی، حکم مجدد ہونے کا رکھتی ہے۔ تاکہ تیرے جیسا مفتری علی اﷲ اور کذاب۔
نشان دوم… یہ کہ میری تصدیق میں چاند اور سورج گرہن کو رمضان شریف میں گرہن لگا اور یہ موافق حدیث کے ہے۔ (حقیقت الوحی ص۱۹۴، خزائن ج۲۲ ص۲۰۲)
الجواب… اوّل تو یہ حدیث نہیں کسی کا قول ہے وہ بھی حسب تصریح محدثین موضوع۔ دوسرے اس میں چاند کے پہلی رات میں گرہن کا اور سورج کے پندرہویں رات کے گرہن کا ذکر ہے۔ سو ایسا نہیں ہوا اب رہا یہ امر کہ اب تک ایسا ہوا ہی نہیں۔ سو جواب یہ ہے کہ جب ہی تو یہ نشان مہدی ہے کہ خدا نے اس کی خاطر ایسی انوکھی بات دکھلائی جو اب تک نہیں دکھلائی اور جو عقل سے باہر تھی۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ کا خلاف قانون قدرت چاند کو دو ٹکڑے کردینا۔ اب رہی یہ بات کہ عربی میں اوّل، دوم، سوم رات کے چاند کو ہلال کہتے ہیں نہ قمر۔ سو جواب یہ ہے کہ یہ خیال تمہاری بے علمی کم لیاقتی یا شرارت پر مبنی ہے۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ خداوند عالم نے ہرچیز کو دوجوہر عطا کئے ہیں۔ ایک ذات اور دوسری صفت اسی طرح دو نام مقرر کئے ہیں۔ ذاتی اور صفاتی جیسے آدم بچہ کو بھی آدم کہہ سکتے ہیں اور بوڑھے کو بھی آدم۔ اسی طرح چاند کے تین نام ہیں ایک ذاتی یعنی قمر اور دو صفاتی یعنی ہلال اور بدرپس ہلال کو بھی قمر کہہ سکتے ہیں اور بدر کو بھی۔ اب رہا یہ امر کہ کسی نے پہلی رات کے چاند کو قمر نہیں کہا۔ سو یہ سراپا لچر سوال ہے کہ جب قمر ذاتی نام ہے اور اس کو ہر حالت پر بول سکتے ہیں اور ہلال اور بدرصفاتی جن کو سوائے اپنی حالت کے اس نام سے تعبیر نہیں کرسکتے اور یہ امر محاورہ رواج لغت عرب میں بلحاظ شہرت حد تواتر کو پہنچ چکا ہے تو اب کسرہی باقی رہ گئی۔ لو