والشہادۃ جانتا ہے کہ بے چارے کو اس بہشتی مقبرہ سے کہ جس کی اوروں کو دعوت وترغیب دی جاتی تھی اور جو قیمتی بیان ہوتا تھا محروم رکھنے میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ ظاہراً تو اس کے غرہ نبوت (خبر دینے) کو توڑنا اور اس کے مریدوں پر اس کے جھوٹا ہونے کی حجت کو تمام کرنا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب فقیر اس قدر تحریر کرچکا تو معلوم ہوا کہ بوجہ لاہور میں مرنے کے لاہوری یاروں نے مرزا کا نقلی جنازہ بنایا اور تین فریق ہندو وعیسائی ومسلمان قائم کئے اور ہر فریق حسب طریق مذہب خود تجہیز وتکفین کرنے کا مدعی بنااور تضحیک اور استہزاء ہوا کہ الامان اور جس سے بالا ممکن نہیں پس لاہور میں مرزا کے مرنے میں حکمت بالغہ ایزدی کا بھی تقاضا تھا کہ جیسے مرزا بوجہ کذب بیانی وافترا علی اﷲدعویٰ نبوت ورسالت عند اﷲ اشرالناس وابترالناس ہے اس کا نمونہ دنیا میں بھی دکھلایا جائے آخر میں یہ فقیر میاں نور الدین جانشین مرزا سے کہتا ہے کہ اس فقیر کے جن رسائل مظہر نعمتہ، انکشاف، مرقع وغیرہ ذالک کا جواب دینا آپ کے گروگھنٹال کے نصیب نہیں ہوا۔ ان کا جواب آپ ہی لکھ کر انپے کاذب نبی رسول پر سے اس دھبہ کو دور کردیں۔ مگر یاد رہے کہ آنجہانی کی طرح مکروزور کذب وغرور سے کام نہ لینا ورنہ تمام راز کھول کر پبلک کی روشنی میں رکھ دیا جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑیں۔ پہلی بسم اللہ ہی غلط نکلے۔ اور ہوا اڑ جائے۔ پول کھل جائے آ خر میں صاحبان اسلامی اخبارات کی خدمات عالیہ میں التماس ہے کہ اگر اس مضمون صدق مشحون کو اپنی اخبارات میں جگہ دے کر پبلک کی روشنی میں لائیں گے۔ تو علاوہ عند اﷲ ماجور ہونے کے ناظرین اخبارات کی دلچسپی کا باعث بھی ضرور ہوگا۔
والسلام! خیر فتام راقم فقیر ابو المنظور محمد عبدالحق کوٹلوی السرہندی ۲۹؍مئی ۱۹۰۸ء
غز ل تاریخی بلحاظ سمت بکرمی
پس از حمد وثنائے حق معبود
در ود احمد بے حد ومعدود
شود معلوم کہ محروم از حق
غلام قادیانی گشت مفقود
کرشن قادیانی روز منحوس
بصد خواری وذلت گشت نابود
سیاہ مثل کرشن اصل گشتہ
سوئے نار جہنم گشت پد رود
نجات خلق از موذئی بد شد
زمین شد پاک از منحوس ومردود