مضمون مرقع وانکشاف کا تو ذکر ہو ہی چکا ہے۔ رسالہ انکشاف کے سرورق پر جو رباعیات لکھی گئی ہیں ان میں سے یہ شعر ہیں ؎
لبریز ہے جام عمر فانی
تیری کا غلام کادیانی
کیوں حرص وہوا کے ساتھ ہوکر
کھوتا ہے نسیم جاودانی
مرزا پر پڑی ہے مار حق کی
ہے منکر حق ذلیل ہر آن
اور یہ رباعیات مرزا کے مرنے کے قریب قریب لکھی گئی ہیںچونکہ مرزا اور اکثر شریر منش مرزائی عوام سادہ لوح اہل اسلام کو مرزا کے دعوی مجددیت کے جال میں پھنسا کر ان کی روح ایمان کو نکالتے تھے اور ہیں اس واسطے ان کے اس مکر کے ابطال میں یہ فقیر رسالہ ’’مجدد الوقت‘‘ لکھ رہا ہے جس سے ثابت کیا جائے گا کہ شرعاً وعرفاً عقلاً ونقلاً مرزا جیسا بد عقیدہ شخص مجددیت کا کبھی مستحق نہیں ہوسکتا یہ کہ مجدد کو ن عزیز ہوا کرتے ہیں اور کس جماعت پاک کا نام ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ غریب از وطن وبہشت قادیانی ایسا ہے۔ قابل رحم ہے کہ جیسا مشہور روایت میں شداد بوقت پیدائش وبوقت مرگ قابل رحم بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ جیسے شداد کو باوجود تمام طاقت خرچ کرنے کے اپنی مصنوعی بہشت کی سیر تک نصیب نہ ہوئی۔ اسی طرح مردود قادیانی کو وہ بہشتی مقبرہ جو غریبوں کا لہو کھینچ کر بنایا گیا ہے جس کی بابت بڑے بڑے الہام ہوئے۔ نصیب نہ ہوا۔ اور اس طرح باہر پھینک دیا گیا کہ جس طرح طعام سے باہر بال پھینک دیا جاتا ہے۔ یا جس طرح کوئی حارث کسان سبزہ بے گانہ کو کھیت سے نکال دیتا ہے۔ کیوںنہ ہو آپ بھی تو حارث ہیں پس پنجانی مثل ہے۔ صلہ ہا کو صلہ ہارکب بھاتا ہے۔
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹا کہاں کمند
دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا
جب بے چارے کے مرنے کے دن قریب آتے تو وہی جگہ جو عر صہ دراز سے دارالامان کے نام سے پکاری جاتی تھی دارالزیان معلوم ہوئی اور وہاں سے نکلا لاہور کے غدار گڑھے میں جا گرا پھر کیا تھا۔ اگر سو بار بھی ان کو قادیان میں دفنایا جائے تب بھی ان کی روح لاہور میں بھٹکتی پھرے گی۔ اور خدا کی حکمتوں کو عقل انسانی نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو وہی عالم السر