اس میں شک نہیں کہ بحکم جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا۔ مکار قادیانی کو حق کے مقابلہ کی تاب وطاقت نہیں ملی اور جیسے شیطان لاحول سے پیٹھ دے کر بھاگتا ہے اور اس طرف منہ نہیں کرتا۔ اس طرح اس نے حق کی طرف رخ نہیں کیا۔ باوجود یکہ ہمیشہ تحریک ہوتی رہی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ باطل کو حق کے مقابلہ کی طاقت نہیں دی۔ اس جگہ یہ امر بھی ضرور قابل ذکر ہے کہ جیسے بلحاظ مباہلہ مسنون (بقول مرزا بھی) مرزا کا معذوب ومغضوب ہوکر مرنا مرزا کے کاذب ہونے کی دلیل اور اسی مباہلہ کا اثر ہے۔ اس طرح بحکم الفضل المتقدم۔ قدامت خدمت ومباہلہ ہذا۔ اسی مباہلہ کے اثر سے مرزا کے مغضوب ہونے اور مرنے کی موئید اور مثبت میں ۱۳۰۹ھ میں یا ۱۳۱۰ھ میں مرزا کی جانب مرشدنا کی جانب سے فیصلہ کے لئے رجسٹری کرائی گئی۔ حافظ محمود صاحب کی طرف سے فتویٰ کفر ارتدادبحق مرزا لکھوایا گیا ۱۳۱۲ھ میں رسالہ ’’ایقاظ‘‘ میں بذریعہ الہامات حضرت مرشد نا محی الدین عبدالرحمن لکھوی شہید مدنی کی طرف سے مرزا کی تردید کی گئی۔ اسی سال میں جب عبداللہ آتھم عیسائی کے متعلق مرزا کی پیشین گوئی غلط نکلی اور مغضوب قادیانی کی وجہ سے اسلام کی ہسنی ہوئی تو بہ نیت حمایت وبریت اسلام اشتہار میں مرزا کے عام دعاوی کی تکذیب کرکے اس کا کذب ثابت کیا گیا جس کا عنوان یہ ہے۔
’’اس تہنیت کے ساتھ ایک اور مژدہ ناظرین کو سنایا جاتا ہے کہ الحمد ﷲ غلام احمد قادیانی کا طلسم فریب ٹوٹا اور اپنی مانی شکست سے جھوٹا ہوگیا۔ مکروفریب کے جو جال اس نے چاروں طرف مکڑی کی طرح پھیلائے تھے وہ سب اوہن البیت کبیت العنکبوت ثابت ہوگئے۔ آخر سچ سچ ہے اللہ تعالیٰ کے قہروغضب سے ڈرنا چاہئے کہ جو کل زبان سے مجدد اور مسیح مہدی اور حارث بنتا تھا وہ آتھم کے سامنے ایسا شکست خوردہ ہوگیا کہ بقول خود تمام بدکاروں اور لعنتیوں سے لعنتی بن گیا۔‘‘
سچ وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے
قطعہ
ہوا جھوٹا غلام قادیانی
نصاریٰ سے شکست فاش پائی
کیا اسلام کو بدنام ہیہات
تفویز زندگی بے حیائی